سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
آسمانی صحیفوں میں اللہ نے آدمی کو انسان بننے کے گر سکھائے۔ انہیں تہذیب و تمدن سے آشنا کیا۔ انہیں آدابِ تمدن سکھائے۔ کامیاب معاشرتی زندگی کار از سمجھایا۔انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملکر سماج کی تعمیر اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرنے کی ہدایت دی۔ ان آسمانی صحیفوں نے انسانوں کو مادیت پرستی سے اوپر اٹھ کر روحانی طور پر اپنے آپ کو ایک اعلی منصب پر پہنچنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان صحیفوں نے اللہ کی وحدانیت کی تعلیم دی اور مادی خداؤں کی پرستش سے روکا۔
بہتر سماج کی تشکیل کے لئے آسمانی صحیفوں نے جو نسخہ انسان کو بتایا وہ تھا اتحاد اور پر امن بقائے باہمی۔ اس کے بغیر ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں تھی۔اور پرامن بقائے باہم کے لئے انسان کو ایک دوسرے کے دکھ سکھ آرام اور مفاد کا خیال رکھنا ضروری قراردیاگیا۔ اس کے لئے انسانوں کو دوسرے کے ساتھ ایثار، تحمل، صبر وضبط اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی گئی اور انہیں یہ حکم دیاگیا کہ وہ ایک دوسرے کو بہتر انسان بننے اور روحانیت کی راہ میں ترقی کرنے کے لئے صلاح دیتے رہیں اور انہیں برائی سے اور دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچانے والے اعمال سے پرہیز کریں۔
ؔآسمانی صحیفوں نے انسان کو ایک باضابطہ راہ حیات دی جسے شریعت کہاگیا۔ ہر نبی کو ایک شریعت دی گئی۔ اور رسول نبیوں کو کتابیں بھی دئی گئیں۔ ان آسمانی صحیفوں میں توحید کی تعلیم دی گئی اور حقوق العباد اور حقوق اللہ کی نشاندہی کر دی گئی۔ حرام اور حلال، بھلے برے اور نیکی اور بدی کا تصور واضح کردیاگیا۔
لیکن انسان رفتہ رفتہ مادیت کی طرف مائل ہوتاگیا اور مادیت پرستی نے اس کے اندر حرص و ہوس اور لالچ کو فروغ دیا۔ دنیاوی آسائشوں کی ہوس نے ان کے درمیان غیر صحت مند مسابقت کو فروغ دیا اور وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔اس سے دین میں بگاڑ آیا۔ انہوں نے مادی آسائشوں کے لئے اور دنیا میں اپنی برتری کے لئے فرقے بنالئے اور اپنے فرقے کے پیشوا بن گئے۔ اپنے فرقے کو جواز عطاکرنے کے لئے انہوں نے طرح طرح کی دلیلیں پیش کیں اور دین میں مبالغہ کیا۔ انہوں نے اپنے فرقے کو افضل اور دوسرے فرقوں کوکم تر بلکہ باطل قراردیا۔
سیاسی اقتدار، دنیاوی آسائشوں اور عوام کا پیشوا بننے کی ہوس نے ہر مذہب میں فرقہ بندی کو فروغ دیا۔ اگر فرقہ بندی نہ ہو اور ایک سارے لوگ ایک مذہب پر ہوں تو سارے لوگ برابر کہلائیں گے اور انہیں ایک دوسرے پر سبقت یا برتری حاصل نہیں ہوگی۔ اسی برتری کی خواہش اور شخصیت پرستی نے تمام مذاہب میں فرقہ بندی کو فروغ دیا۔
اسی فرقہ بندی نے قوم یہود کو فرقوں میں بانٹ دیا۔ یہودیوں میں کئی فرقے ہوگئے جو نہ صرف نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے مخالف تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے۔ ان میں عقائد کی بھی خرابیاں آگئیں۔ انہوں نے توریت کے احکام کی من مانے ڈھنگ سے اپنے سیاسی اور سماجی مفادات کے تحت تاویلات پیش کرنی شروع کردیں۔ جس کی وجہ سے ان میں اختلافات ہوگئے۔ قرآن اس ضمن میں کہتاہے:
”اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تواس میں اختلاف کیاگیااور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیاجاتا۔وہ تو اس سے قوی شبہے میں ہیں۔“ (ھود: ۰۱۱)
ا س فرقہ بندی کی وجہ سے قوم یہود جو ایک زمانے میں اللہ کی پسندیدہ قوم تھی اور زمانے پر حاکم تھی رفتہ رفتہ کمزور ہوتی گئی اور اللہ نے ان کے گناہوں اور انکی نافرمانیوں کی پاداش میں ان پر ظالم بادشاہ مسلط کردئیے۔ ان پر ہر زمانے میں ظالم بادشاہ مسلط ہوتے رہے جو انہیں تباہ کرتے رہے اور وطن سے بے وطن کرتے رہے۔اور ان کی تعدا د بھی کم ہوتی گئی۔
اس کے بعد دین کا احیاء کرنے کے لئے اللہ نے حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ انہوں نے بھی توحید کی تعلیم دی اور پاکیزہ زندگی کزارنے، کمزوروں پر رحم کرنے اور پرہیزگاری کی تعلیم دی۔ مگر عیسائیوں میں بھی رفتہ فتہ فرقہ بندی ہونے لگی۔ مذہبی پیشواؤں نے اپنے سیاسی اور سماجی مفاد کے لئے انہیں فرقوں میں تقسیم کردیا۔ ایک زمانے میں عیسائیوں کے فرقوں میں خونریزی بھی ہوئی اور عیسائی عیسائی کے دشمن ہوگئے۔ قرآن عیسائیوں میں فرقہ بندی کے متعلق کہتاہے:
”پھر کتنے فرقے ان میں سے پھٹ گئے سو جولوگ ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والے عذاب کے دن سے خرابی ہے۔“ (الزخرف: ۵۶)
اسلام نے دنیا میں انسانوں کو پھر سے ایک خدا کے نام پر متحد کیا اور انہیں فرقوں کے نام پر نفرت اور خونریزی سے منع کیا اور فرقہ بندی کو بدترین گناہ بلکہ کفر قرار دیا۔ دین میں فرقے بنانا اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کو قرآن نے غیر اسلامی فعل قراردیا۔ اور ایسا کرنیوالے کو دین سے خارج قراردیا۔ قرآن کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیں:
”جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں۔“ (الانعام: ۹۵۱)
اس آیت سے واضح ہے کہ اللہ فرقہ بندی کو بہت ناپسند کرتاہے۔ دین میں فرقہ بنانا در اصل دین کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ قرآن کی اس آیت سے واضح ہے:
”یہ کہ قائم رکھو دین کو اور اختلاف نہ ڈالو اس میں۔“ (الشوری ٰ: ۳۱)
اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ دین تب تک ہی قائم رہ سکتاہے جب تک اس میں اختلاف نہ پیداہوں۔
”تو کہہ اسی کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کرکے اور چکھادے لڑائی ایک کو ایک کی۔“ (الانعام: 65)
”اور متفرق کردیا ہم نے ان کو ملک میں فرقے فرقے بعضے ان میں سے نیک اور بعضے اور طرح کے۔“ (الاعراف: 168)
”اور جو پھوٹ پڑی اہل کتاب میں سو جب کہ آچکی ان کے پاس کھلی کتاب۔“ (البینہ: ۴)
فرقہ بندی اللہ اور رسول کے نزدیک سب سے ناپسندیدہفعل ہے اور ا س کی وجہ سے اللہ عذاب نازل ہوتاہے۔ اس عذاب کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔فرقہ بندی کے نتیجے میں دنیا میں ایک ہی قوم کے فرقوں میں خوں ریزی ہوتی ہے جو کہ اللہ کے عذاب کی ہی ایک صورت ہے۔ اس کے لئے علاوہ بلائیں اور مصیبتیں بھی فرقہ بندی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ یہ قرآن کی آیات سے ہی واضح ہے۔
قوموں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ آپس میں اختالافات کو ہوا دیتے ہیں اور اپنی ہی قوم کے افراد کو باطل قراردے کر ان پر ظلم و تشدد کرتے ہیں اور اپنے فرقے پر فخر کرتے ہیں۔
جنہوں نے پھوٹ ڈالی اپنے دین میں اور ہوگئے ان میں بہت فرقے ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر غش ہے۔“ (الروم: ۲۳)
فرقہ بندی قوموں کے زوال کا سبب ہے۔ امتوں میں فرقہ بندی عقائد میں بگاڑسے پیدا ہوتی ہے اور عقائد کا بگاڑ انہیں دین کی بنیادی تعلیمات سے بہت دور کردیتاہے جس کی وجہ سے وہ اللہ اور رسول کی نگاہ میں گرجاتے ہیں اور ان کی ناراضی مول لیتے ہیں۔ یہودیوں کی قوم فرقہ بندی کی وجہ سے ہی دنیا میں ذلیل و خوار ہوئی۔ وہ فرقہ در فرقہ میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کے جان کے دشمن بن گئے۔ اسلئے اللہ نے ان سے اقتدار اور طاقت چھین لی اور وہ دنیا میں بکھر گئے۔ مختلف ادوار میں ان پر اللہ نے ظالم حکمراں مسلط کئے جنہوں نے انہیں ہلاک اور وطن بدر کیا۔ بخت نصر اور ہٹلر ان حکمرانوں کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہودیوں کے بعد عیسائیوں کو عروج ہوا مگر ان میں بھی فرقے ہوگئے اور مختلف فرقوں میں خونریزی بھی ہوئی۔ عیسائیوں نے بھی فرقوں کی بنا پر ایک دوسرے کاخون بہایا اور ان کی سلطنتیں مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ ہوئیں۔ مسلمان جب تک متحد تھے انہوں نے دنیا میں غلبہ پایا اور آدھی دنیا پر حکمرانی کی مگر جب ان کے اندر فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات شدید ہوگئے اور وہ اختلافات کی بنیاد پر فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور ایک دوسرے کو کافر کہنا شروع کیا تب سے وہ اقتداراور طاقت سے محروم ہونے لگے۔ ان کی حکومتیں ان سے چھن گئیں اور وہ بدعات اور خرافات میں مبتلاہوگئے۔
قرآن میں اللہ نے یہودیوں اور نصاری میں فرقہ بندی اور اختلافات اور ان اختلافات کے نتیجے میں ان پر آنے والی مصیبتوں کا ذکر اسی لئے کرتاہے کہ مسلمان ان کے انجام سے سبق لیں اور فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات کی لعنت سے خود کو دور رکھیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان نے قرآن سے سبق نہیں سیکھا اور پچھلی امتوں کے زوال اور ان کے برے انجام سے عبرت حاصل نہیں کی۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے فرقے کی حقانیت کا جواز قرآن ہی سے پیش کرتے ہیں جبکہ قرآن فرقہ بندی پر لعنت بھیجتاہے۔ اس طرح مسلمان فرقہ بندی میں تو مبتلا ہیں ہی اس پر قرآن کی آیتوں کی غلط تاویلیں پیش کرکے مزید عذاب مول لیتے ہیں۔
فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات اور منافرت کسی بھی حال میں قابل ستائش نہیں ہے کیونکہ اس سے امّت میں بگاڑ پیداہوتاہے اور ملی اتحاد میں رکاوٹ ہے۔ اس سے بچنا ہر مسلمان کے لئے فرض ہے۔
0 comments:
Post a Comment