Pages

Thursday, August 29, 2019

Sectarian Differences are the Cause of Downfall of Nations فرقہ بندی کسی بھی امت کے زوال کی نشانی ہے




سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
آسمانی صحیفوں میں اللہ نے آدمی کو انسان بننے کے گر سکھائے۔ انہیں تہذیب و تمدن سے آشنا کیا۔ انہیں آدابِ تمدن سکھائے۔ کامیاب معاشرتی زندگی کار از سمجھایا۔انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملکر سماج کی تعمیر اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرنے کی ہدایت دی۔ ان آسمانی صحیفوں نے انسانوں کو مادیت پرستی سے اوپر اٹھ کر روحانی طور پر اپنے آپ کو ایک اعلی منصب پر پہنچنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان صحیفوں نے اللہ کی وحدانیت کی تعلیم دی اور مادی خداؤں کی پرستش سے روکا۔
بہتر سماج کی تشکیل کے لئے آسمانی صحیفوں نے جو نسخہ انسان کو بتایا وہ تھا اتحاد اور پر امن بقائے باہمی۔ اس کے بغیر ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں تھی۔اور پرامن بقائے باہم کے لئے انسان کو ایک دوسرے کے دکھ سکھ  آرام اور مفاد کا خیال رکھنا ضروری قراردیاگیا۔ اس کے لئے انسانوں کو دوسرے کے ساتھ ایثار، تحمل، صبر وضبط اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی گئی اور انہیں یہ حکم دیاگیا کہ وہ ایک دوسرے کو  بہتر انسان بننے اور روحانیت کی راہ میں ترقی کرنے کے لئے صلاح دیتے رہیں اور انہیں برائی سے اور دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچانے والے اعمال سے پرہیز کریں۔
ؔآسمانی صحیفوں نے انسان کو ایک باضابطہ راہ حیات دی جسے شریعت کہاگیا۔ ہر نبی کو ایک شریعت دی گئی۔ اور رسول نبیوں کو کتابیں بھی دئی گئیں۔ ان  آسمانی صحیفوں میں توحید  کی تعلیم دی گئی اور حقوق العباد اور حقوق اللہ کی نشاندہی کر دی گئی۔ حرام اور حلال، بھلے برے اور نیکی اور بدی کا تصور واضح کردیاگیا۔
لیکن انسان رفتہ رفتہ مادیت کی طرف مائل ہوتاگیا اور مادیت پرستی نے اس کے اندر حرص و ہوس اور لالچ کو فروغ دیا۔ دنیاوی آسائشوں کی ہوس نے ان کے درمیان غیر صحت مند مسابقت کو فروغ دیا اور وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔اس سے دین میں بگاڑ آیا۔ انہوں نے مادی آسائشوں کے لئے اور دنیا میں اپنی برتری کے لئے فرقے بنالئے اور اپنے فرقے کے پیشوا بن گئے۔ اپنے فرقے کو جواز عطاکرنے کے  لئے انہوں نے طرح طرح کی دلیلیں پیش کیں اور دین میں مبالغہ کیا۔ انہوں نے اپنے فرقے کو افضل اور دوسرے فرقوں کوکم تر بلکہ باطل قراردیا۔
سیاسی اقتدار، دنیاوی آسائشوں اور عوام کا پیشوا بننے کی ہوس نے ہر مذہب میں فرقہ بندی کو فروغ دیا۔ اگر فرقہ بندی نہ ہو اور ایک سارے لوگ ایک مذہب پر ہوں تو سارے لوگ برابر کہلائیں گے اور انہیں ایک دوسرے پر سبقت یا برتری حاصل نہیں ہوگی۔ اسی برتری کی خواہش اور شخصیت پرستی نے تمام مذاہب میں فرقہ بندی کو فروغ دیا۔
اسی فرقہ بندی نے قوم یہود کو فرقوں میں بانٹ دیا۔ یہودیوں میں کئی فرقے ہوگئے جو نہ صرف نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے مخالف تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے۔ ان میں عقائد کی بھی خرابیاں آگئیں۔ انہوں نے توریت کے احکام کی من مانے ڈھنگ سے اپنے سیاسی اور سماجی مفادات کے تحت تاویلات پیش کرنی شروع کردیں۔ جس کی وجہ سے ان میں اختلافات ہوگئے۔ قرآن اس ضمن میں کہتاہے:
”اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تواس میں اختلاف کیاگیااور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیاجاتا۔وہ تو اس سے قوی شبہے میں ہیں۔“ (ھود: ۰۱۱)
ا س فرقہ بندی کی وجہ سے قوم یہود جو ایک زمانے میں اللہ کی پسندیدہ قوم تھی اور زمانے پر حاکم تھی رفتہ رفتہ کمزور ہوتی گئی اور اللہ نے ان کے گناہوں اور انکی نافرمانیوں کی پاداش میں ان پر ظالم بادشاہ مسلط کردئیے۔ ان پر ہر زمانے میں ظالم بادشاہ مسلط ہوتے رہے جو انہیں تباہ کرتے رہے اور وطن سے بے وطن کرتے رہے۔اور ان کی تعدا د بھی کم ہوتی گئی۔
اس کے بعد دین کا احیاء کرنے کے لئے اللہ نے حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ انہوں نے بھی توحید کی تعلیم دی  اور پاکیزہ زندگی کزارنے، کمزوروں پر رحم کرنے اور پرہیزگاری کی تعلیم دی۔ مگر عیسائیوں میں بھی رفتہ فتہ فرقہ بندی ہونے لگی۔ مذہبی پیشواؤں نے اپنے سیاسی اور سماجی مفاد کے لئے انہیں فرقوں میں تقسیم کردیا۔ ایک زمانے میں عیسائیوں کے فرقوں میں خونریزی بھی ہوئی اور عیسائی عیسائی کے دشمن ہوگئے۔ قرآن عیسائیوں میں فرقہ بندی کے متعلق کہتاہے:
”پھر کتنے فرقے ان میں سے پھٹ گئے سو  جولوگ ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والے عذاب کے دن سے خرابی ہے۔“ (الزخرف: ۵۶) 
اسلام نے دنیا میں انسانوں کو پھر سے ایک خدا کے نام پر متحد کیا اور انہیں فرقوں کے نام پر نفرت اور خونریزی سے منع کیا اور فرقہ بندی کو بدترین گناہ بلکہ کفر قرار دیا۔ دین میں فرقے بنانا  اور  مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کو قرآن نے غیر اسلامی فعل قراردیا۔ اور ایسا کرنیوالے کو دین سے خارج قراردیا۔ قرآن کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیں:
”جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں۔“ (الانعام: ۹۵۱)
اس آیت سے واضح ہے کہ اللہ فرقہ بندی کو بہت ناپسند کرتاہے۔ دین میں فرقہ بنانا در اصل دین کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ قرآن کی اس آیت سے واضح ہے:
”یہ کہ قائم رکھو دین کو  اور اختلاف نہ ڈالو اس میں۔“ (الشوری ٰ: ۳۱)
اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ دین تب تک ہی قائم رہ سکتاہے جب تک اس میں اختلاف نہ پیداہوں۔
”تو کہہ اسی کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کرکے اور چکھادے لڑائی ایک کو ایک کی۔“ (الانعام: 65)
”اور متفرق کردیا ہم نے ان کو ملک  میں فرقے فرقے بعضے ان میں سے نیک اور بعضے اور طرح کے۔“ (الاعراف: 168)
”اور جو پھوٹ پڑی  اہل کتاب میں سو جب کہ آچکی ان کے پاس کھلی کتاب۔“ (البینہ: ۴)
فرقہ بندی اللہ اور رسول کے نزدیک سب سے ناپسندیدہفعل ہے  اور ا س کی وجہ سے اللہ عذاب نازل ہوتاہے۔ اس عذاب کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔فرقہ بندی کے نتیجے میں دنیا میں ایک ہی قوم کے فرقوں میں خوں ریزی ہوتی ہے جو کہ اللہ کے عذاب کی ہی ایک صورت ہے۔ اس کے لئے علاوہ بلائیں اور مصیبتیں بھی فرقہ بندی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ یہ قرآن کی آیات سے ہی واضح ہے۔
قوموں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ آپس میں اختالافات کو ہوا دیتے ہیں اور اپنی ہی قوم کے افراد کو باطل قراردے کر ان پر ظلم و تشدد کرتے ہیں اور اپنے فرقے پر فخر کرتے ہیں۔
جنہوں نے پھوٹ ڈالی اپنے دین میں اور ہوگئے ان میں بہت فرقے  ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر غش ہے۔“ (الروم:  ۲۳)
فرقہ بندی قوموں کے زوال کا سبب ہے۔ امتوں میں فرقہ بندی عقائد میں بگاڑسے پیدا ہوتی ہے اور عقائد کا بگاڑ انہیں دین کی بنیادی تعلیمات سے بہت دور کردیتاہے جس کی وجہ سے وہ اللہ اور رسول کی نگاہ میں گرجاتے ہیں اور ان کی ناراضی مول لیتے ہیں۔ یہودیوں کی قوم فرقہ بندی کی وجہ سے ہی دنیا میں ذلیل و خوار ہوئی۔ وہ فرقہ در فرقہ میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کے جان کے دشمن بن گئے۔ اسلئے اللہ نے ان سے اقتدار اور طاقت چھین لی اور وہ دنیا میں بکھر گئے۔ مختلف ادوار میں ان پر اللہ نے ظالم حکمراں مسلط کئے جنہوں نے انہیں ہلاک اور وطن بدر کیا۔ بخت نصر اور ہٹلر ان حکمرانوں کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہودیوں کے بعد عیسائیوں کو عروج ہوا مگر ان میں بھی فرقے ہوگئے اور مختلف فرقوں میں خونریزی بھی ہوئی۔ عیسائیوں نے بھی فرقوں کی بنا پر ایک دوسرے کاخون بہایا اور ان کی سلطنتیں مسلمانوں کے  ہاتھوں تباہ ہوئیں۔ مسلمان جب تک متحد تھے انہوں نے دنیا میں غلبہ پایا اور آدھی دنیا پر حکمرانی کی مگر جب ان کے اندر فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات شدید ہوگئے اور وہ اختلافات کی بنیاد پر فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور ایک دوسرے کو کافر کہنا شروع کیا تب سے وہ اقتداراور طاقت سے محروم ہونے لگے۔ ان کی حکومتیں ان سے چھن گئیں اور وہ بدعات اور خرافات میں مبتلاہوگئے۔
قرآن میں اللہ نے یہودیوں اور نصاری میں فرقہ بندی اور اختلافات اور ان اختلافات کے نتیجے میں ان پر آنے والی مصیبتوں کا ذکر اسی لئے کرتاہے کہ مسلمان ان کے انجام سے سبق لیں اور فرقہ بندی اور  مسلکی اختلافات کی لعنت سے خود کو دور رکھیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان نے قرآن سے سبق نہیں سیکھا اور پچھلی امتوں کے زوال اور ان کے برے انجام سے عبرت حاصل نہیں کی۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے فرقے کی حقانیت کا جواز قرآن ہی سے پیش کرتے ہیں  جبکہ قرآن فرقہ بندی پر لعنت بھیجتاہے۔ اس طرح مسلمان فرقہ بندی میں تو مبتلا ہیں ہی اس پر قرآن کی آیتوں کی غلط تاویلیں پیش کرکے مزید عذاب مول لیتے ہیں۔
فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات اور منافرت کسی بھی حال میں قابل ستائش نہیں ہے کیونکہ اس سے امّت میں بگاڑ پیداہوتاہے اور ملی اتحاد میں رکاوٹ ہے۔ اس سے بچنا ہر مسلمان کے لئے فرض ہے۔

Does Maulana Tauqir Raza Barailvi Understand The Implications Of Triple Talaq Act? Why Is He Insisting That Triple Talaq Still Means Irrevocable Instant Divorce?


 By Maulana Tauqir Raza Barailvi, Tr. New Age Islam
16 August 2019



Translated by New Age Islam Edit Bureau from Urdu Audio of a telephonic discussion between Maulana Tauqir Raza Barailvi and Maulana Ahmed Raza Samnani over Triple Talaq Bill, 2019
Click here to listen audio of the telephonic conversation between Maulana Barailvi and Maulana Samnani
Maulana Tauqir Raza Barailvi: They did not consider Triple Talaq three divorces but one divorce.
Maulana Ahmad Reza Samanani: Yes Huzur.
Maulana Tauqir Raza Barailvi: That's right, is it not?
Maulana Ahmad Raza Samanani: Yes Hazrat. You have rightly said. But when I heard your statement through social media, I was surprised how could such a statement come from you?
Maulana Tauqir Raza Barailvi: No, but what has come to you is precisely right.
Maulana Ahmad Reza Samanani: Yes.
Maulana Tauqeer Raza Barailvi: We were struggling to make them believe three divorces as three. They used to say that Triple Talaq is invalid and that pronouncement of Triple Talaq takes place as just one divorce. Now after the Bill has passed, according to which, Triple Talaq will cause punishment; it is quite clear that they too have considered three divorces as three. It means we have won in our struggle. The common Muslims, however, are unable to understand this simple thing.  
Maulana Ahmad Raza Samnani: But Huzur, the point to note is that, if marriage breaks, then how can relationship continue with the spouse?
Maulana Tauqir Raza Barailvi: How can you talk about spouse relationships? You are a literate man. When a man pronounces three divorces, how could he continue his relationship?
Maulana Ahmad Raza Samnani: No Huzur, according to this bill, the court can establish relationship and after punishment, marriage can be sustained.
Maulana Tauqir Raza Barailvi: No, No. The one who is a follower of Islam is a follower of Shariat law. After Talaq, his wife will be forbidden for him.
Maulana Ahmad Raza Samnani: Yes Huzur, you are right.
Maulana Tauqir Raza Barailvi: Listen, they have passed the Bill over Talaq-e-Bid’ah and not over Talaq-e-Ahsan and Talaq-e-Hasan. Talaq Bida’h (Instant Triple Talaq) which is often pronounced in the state of anger or intoxication or any other (mental) state was severely condemned by the Prophet (peace be upon him). In the era of Hazrat Umar, the man who pronounced Triple Talaq in one setting was whipped.
So, if according to the Bill, such Talaq leads to punishment, this should be welcomed. We used to say that Talaq occurs even if it is pronounced in the state of anger or intoxication, but some people refused to accept it. Now since the Bill has passed, they have confirmed that the one who pronounces Triple Talaq will be punished for three years; which means they will have to consider Triple Talaq to be valid as three (and final divorce). In this way we have won but we don’t understand why the people are opposing the Bill or is there something else?    
Maulana Ahmad Raza Samanani: Our Saeed Noori Sahib, the Chairman of Raza Academy is also one of those who are opposing this Bill.
Maulana Tauqeer Raza Barailvi: Some people just have to show off. By fuelling religious sentiment, some people take interest in bringing their names into limelight, photograph and fame in newspapers. Some people are opposing the Bill unnecessarily. They should support the Bill instead. We are angry with what we should be happy about. Actually, we have won in our struggle but they are venting as if we were losers.
Maulana Ahmad Raza Samanani: Yes Huzur. Recently a statement has also come from Asjad Raza sahib. He is considered authoritative personality of our Sunni group.
Maulana Tauqir Raza Barailvi: You are a literate man. So, tell me, what do you understand by it?
Maulana Ahmad Raza Samnani: I think that whatever injustice had been happening to women till date will definitely decrease a bit now.
Maulana Tauqeer Raza Barailvi: Injustice was inflicted upon women till now, as irresponsible divorces such as divorce in the state of anger and intoxication were happening. Was it not the responsibility of all the scholars and liberals to bring awareness to people that they should not adopt this method of Talaq, considering it a sin?
Maulana Ahmad Raza Samnani: Indeed, this is their failure because of which such thing is happening today.
Maulana Tauqir Raza Barailvi: They were ruining the lives of the women. We should think now not as husband but as a father and brother of a sister. As for these people, I do not understand how these people are thinking and why they are perpetrating such (despicable) acts. The very simple thing is that though they have passed this Bill to dishearten Muslims despite our objection, it is true that our Ulema could not do what our God has got done by the government. The life of our daughters will be safe as the Bill will prevent irresponsible divorces.
Maulana Ahmad Raza Samnani: But there is an expectation from people like you, because you have a good platform and influence as well. You are expected to prepare a methodology to deal with the situation. The court has recently issued a judgement that the marriage is not invalid in cases of Triple Talaq. So, after returning from jail, if according to the court, the marriage is not broken, she will not go to her mother's house. It means she will stay at her husband's house. In this case, the forbidden acts will take place. So, you people should prepare a way which can stop the occurrence of forbidden acts.
Maulana Tauqir Raza Barailvi: You have not yet understood. The husband will be punished only when the crime of his triple Talaq is proven. Triple Talaq is a crime. When three divorces are accepted as a crime, it means that all three divorces have taken place. He will be punished only if three divorces are proved. Hazrat Umar (may Allah be pleased with him) has also enacted this punishment by flogging the criminal. After the divorces have taken place, there is no question of staying with her. The only fear is that the couple, after three divorces, may come to reconcile and commit forbidden acts.
How much irresponsible we Muslims are! For example, even the Muslim children of India know that drinking alcohol is forbidden; however, the practice of wine-drinking is becoming common among Muslims. Who are responsible? It is just as if we were demanding to ban alcohol so that our children can be safe. If we can’t stop our children, it is our fault, isn’t it? We, however, consider it the fault of wine-sellers. In fact, it is our fault that we are still unable to stop our children. In the same way, these people should stop their children from pronouncing Triple Talaq, rather than campaigning against Triple Talaq Bill. There is no use campaigning against the government. Instead we should create awareness among our people as much as we can. So dear brothers, getting wine-shops banned will not benefit us. The people will not stop drinking, unless we prevent them.

Western Battle against Hijab to Be Part of War on Islamic Ummah: Al-Qaeda Leader Ayman Al-Zawahiri


Middle East Media Research Institute
August 13, 2019
 








Al-Qaeda leader Ayman Al-Zawahiri
----

On August 7, 2019, Al-Qaeda's Al-Sahab media wing released a video featuring a speech by Al-Qaeda leader Ayman Al-Zawahiri titled "The Battle of the Hijab." In the video, Al-Zawahiri addresses Muslim women and warns them of the war raging against the Islamic nation that seeks to force them to abandon their religion and hijab ("head covering").[1]
The 12-minute video, which is the fourth episode of his da'wa ("preaching, invitation") series, shows the Al-Qaeda leader in the usual setting, in what appears to be a studio, sitting behind a table on which a Quran is open. Al-Zawahiri begins by addressing "Muslim sisters," particularly those who wear the hijab, saying the current war rages against the Islamic ummah at all levels – militarily, politically, ideologically, culturally, educationally, or economically and others. He says: "The reason behind this war is the danger the Muslim ummah poses to the existence of the modern global system, which is controlled by the leading [international] criminals."
Comparing the Islamic nation with other non-Islamic nations, he says that the nation of Islam is a nation of monotheism, chastity, and jihad for the sake of Allah, while other nations believe in polytheism, lechery, and invasion. He then accuses other nations of "trying by all means to exclude the Islamic Ummah or cause it to deviate from this religion and its shari'a." He says that non-Islamic nations wage wars of ideas and ideologies and other types of wars, and that they want Muslims to abandon their monotheism and become "secularists, irreligious, atheists, Christians, communists, and utilitarians," desert chastity, purity, virtue, and integrity, and indulge in lust and pleasures.
In a stark criticism of the United States and Western countries, Al-Zawahiri says: "Isn't it awfully strange that those who bombarded Japan with atomic bombs, killed five million people in Vietnam, occupied our countries, smashed the Ottoman state, planted Israel in our midst, divided us into more than 50 countries, are stealing our wealth and even the wealth of the whole humanity, are disregarding the destruction of our planet by climate change for their our own interest, are supporting every tyrant and corrupt powerful leader in our countries, and then lecture us about human rights, freedom, civilization, and justice?"
"Is it not strange that the world is controlled by five criminal powers through their international legitimacy, and then they lecture us on democracy and equality?" he asks.
Addressing Muslim women, Al-Zawahiri says that they stand on the frontlines of such wars. He also warns them that non-Islamic nations want Muslim women to abandon their "religion, commitment, chastity, modesty, Hijab, and morals," adding that they also want Muslim women to be atheists, irreligious, and secularists with no morals and principles.
He then praises the role of Muslim women in the Islamic community and their steadfastness, patience, and suffering, especially if their sons or husbands are killed, arrested, or lost. He commends Muslim women and girls who supported their male siblings who participated in jihad, incited them to take part in protests against oppression and tyranny, or suffered due to their imprisonment.
Al-Zawahiri goes on to say: "Oh noble and honorable women, you are one of the first targets in the war against our Islamic Ummah. They will try to reach your faith and conviction using every loophole so that they can penetrate [your faith]."
Confronting cultural, ideological, and media attacks against Muslim women, Al-Zawahiri encourages them to remain patient, steadfast, persevere, and seek Allah's help, urging those who make mistakes or commit sins to immediately repent and seek Allah's forgiveness.
Al-Zawahiri concludes by reciting the following Quranic verse, Quran 33:35: "Indeed, the Muslim men and Muslim women, the believing men and believing women, the obedient men and obedient women, the truthful men and truthful women, the patient men and patient women, the humble men and humble women, the charitable men and charitable women, the fasting men and fasting women, the men who guard their private parts and the women who do so, and the men who remember Allah often and the women who do so – for them Allah has prepared forgiveness and a great reward."

Respect of Humanity, Islam and Our Responsibility मानवता का सम्मान, इस्लाम और हमारा कर्तव्य


कनीज़ फातमा, न्यू एज इस्लाम
मौजूदा दौर में अगर वैश्विक जनमत के संदर्भ में अगर विश्व समुदाय का निरिक्षण कियता जाए तो यह बात सामने आती है कि वर्तमान विश्विक विचार और दृष्टिकोण इस्लाम की इंसानियत नवाज़ी के मुनकिर हैं बल्कि इस्लाम को आतंकवाद से जोड़ने के कायल हैंl निश्चित रूप से इन हालात के जिम्मेदार वह संगठन हैं जो इस्लाम के नाम पर आतंकवादी कार्य व किरदार को अंजाम दे रहे हैंl जबकि वास्तव में इसके विपरीत हैl इस्लाम मानवता का सम्मान करने की शिक्षा देता हैl यह वह नैतिक पहलु है जिसने पूरी दुनिया को प्रभावित किया हैl इस्लामी सभ्यता व परंपरा और सूफिय व मशाइख के कार्य व किरदार में मानव सम्मान के वह उच्च बौद्धिक व व्यावहारिक नुकूस मिलते हैं जिन पर अमल करके आज भी देशवासियों के दिलों पर इस्लाम के नैतिक प्रभाव का नक्श कायम कर सकते हैं और लोगों के दिलों से इस्लाम के संबंध में सहक और संदेह को व्यवहारिक रूप से दूर कर सकते हैंl’
मानव सम्मान का अंदाजा इस हकीकत से निश्चित तौर पर स्पष्ट होता है कि नबी क्रीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम जब किसी इलाके में गवर्नर नियुक्त करते तो निर्देश देते कि लोगों पर नरमी की जाए, उन्हें डर में मुब्तिला ना किया जाएl सहीह मुस्लिम में एक घटना इस प्रकार बयान हुआ है कि जब मुआज़ बिन जबल को यमन की गवर्नरी पर नियुक्त किया तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फरमाया:
یسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا تطاوعا ولا تختلفا
अर्थात आसानी पैदा करना, दुश्वारी पैदा मत करना, लोगों को बशारत देना और उनको भयभीत मत करना, आपस में इत्तेफाक रखना और मतभेद मत करना और जब हज़रत मुआज़ बिन जबल चलने के लिए तैयार हुए और पावं रिकाब में डाला तो और निर्देश दिए:
احسن خلقک للناس  یعنی لوگوں کے خوش خلقی کا برتاو کرنا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجھاد ، باب فی الامر بالتیسیر وترک التنفیر )
हज़रत उमर रज़ीअल्लाहु अन्हु का यह मामूल था कि हमेशा गवर्नरों के संबंध में लोगों से पूछते रहते थेl एक बार हज़रत ने जरीर से हज़रात साद बिन अबी वकास के संबंध में पूछा तो उन्होंने यह जवाब दिया:
मैंने उनको गवर्नरी में इस हाल में छोड़ा कि वह मुकदरत में शरीफ तरीन इंसान थे उनमें सख्ती बहोत कम थी, और लोगों के लिए इस तरह मुश्फिक व मेहरबान थे जिस तरह मां अपने बच्चों के लिए होती है, लोगों की रोज़ी को च्यूंटी की तरह जमा करते थेl (अल सबात फिल मारफतुल सहाबा जिल्द ३, पृष्ठ ६४)
मानव सम्मान के हवाले से ख्वाजा निजामुद्दीन महबूब इलाही का यह वाकिया हमारे लिए इबरत है:
१५ मुहर्रमुल हराम ७१० हिजरी को एक व्यक्ति शैख़ निजामुद्दीन औलिया की सेवा में आया और उनको बुरा भला कहने लगा, शैख़ खामोशी से सुनते रहे, फिर उसकी सारी मांगे पूरी कर दीl जब वह चला गया तो हाज़रीन को बताया कि ऐसा ही एक व्यक्ति बाबा फरीद की खिदमत में आया और उनसे बेबाकी के साथ कहने लगा: “तू बुत बन कर बैठ गया है”, इस पर बाबा फरीद ने जवाब दिया:
من نہ ساختہ ام خدا تعالی ساختہ است(فوائد الفوائد ، ج۲ ص ۸۱، مجلس ۵)
अर्थात मैंने नहीं बनाया खुदा ने बनाया है
मानव सम्मान के संबंध में इस्लाम सामान स्टैंड रखता हैl अल्लाह पाक का इरशाद है “मखलूक अल्लाह का कुंबा हैl अल्लाह के नजदीक सबसे अच्छा वह व्यक्ति है जो इस कुंबे के साथ अच्छा सुलूक करे”l
मानव सम्मान को मोमिन के विकास का ज़ामिन बताया गया हैl रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पाक इरशाद में सच्चे मोमिन और उसके ईमान की तरक्की के हवाले से यह सराहत मिलती है कि मोमिन हमेशा नेक काम में तरक्की करता है और करता रहे गा जब तक वह नाजायज और हराम खून ना बहाए और जब हराम खून बहा कर ज़मीं में फसाद बरपा करेगा तो वह थक कर मायूस बैठ जाए गा बल्कि उसकी तरक्की रुक जाएगी (अबू दाउद)
कुरआन और सुन्नत ने खूँ रेज़ी को सख्ती से निषेध करार दिया हैl और जहां कहीं भी जंग की अनुमति दी गई वहाँ भी असल में मानवता की सुरक्षा ही मद्देनजर रहीl कुरआन पाक सरीह शब्दों में यह एलान करता है कि जिसने किसी एक जान को क़त्ल किया ना जान के बदले ना ज़मीन पर किसी आपराधिक कार्य के आधार पर तो गोया उसने पूरी इंसानियत का कत्ल कर दिया (अल मायदा)
मानव सम्मान के लिए कुरआन की यही शिक्षा पर्याप्त हैl जो मोमिन है वह मानव सम्मान की इस्लामी शिक्षा को समझते हैं और उन पर अमल करने की कोशिश करते हैं और इस बात के गवाह हैं कि इस्लाम में अमन व शांति, मानव सम्मान और मानवाधिकार की सुरक्षा को बुनियादी हैसियत प्राप्त हैl इसलिए आज इस बात की आवश्यकता है कि हम मानव सामान की शिक्षा पर अमल करें और उन्हें खूब आम करें ताकि दुनिया से नफरत का अंत किया जा सके और इंसानों को इंसानियत के करीब किया जा सकेl

Endgame for Zakir Naik? Zakir Naik and His Salafi Brand of Islam Can Only Survive In the Arid Landscape of Saudi Arabia


By Arshad Alam, New Age Islam
21 August 2019
It is almost as if Zakir Naik has no control over his inner urge to denigrate religions other than Islam. After getting refuge in Malaysia, a Muslim majority country, he is again at his acerbic best trying to insinuate that Malaysian Hindus are not loyal to that country. Earlier, he also called Malay Chinese as ‘old guests’ of the country implying that they should now return to China. This time, he told a congregation that Hindus living in Malaysia were more loyal to Prime Minister Modi than to the Malaysian Prime Minister Mahathir Mohammad. His comments have not been taken lightly. He has been thoroughly criticised for his bigoted views by many Muslim religious organizations and now even the prime minister has sought a report on his ‘political’ anti-pluralistic utterances. Already, Zakir Naik has been banned from speaking in some of the states in Malaysia and it looks very likely that he will be banned from preaching throughout Malaysia.
 







Zakir Naik
-----
Ridiculing minorities and constantly testing them in the name of nationalism has been the hallmark of right wing politics the world over. Zakir Naik was forced to leave India due to his terror inspiring lectures but then argued that he was hounded out because of his Muslim identity. Today, Zakir Naik seems to be vomiting the same hatred that he accused the Hindu right wing in India of. But more importantly perhaps, the Malaysian authorities have realised that people like Zakir Naik and his version of Islam are unfit for the plural mosaic of their country. Zakir Naik and his Salafi brand of Islam can only survive in the arid landscape of Saudi Arabia where the very ideological superstructure is anti-plural. Societies in South and South East Asia have been religiously plural for centuries and hence Zakir Naik variety of Islam is wholly unsuited for these regions.
There are many in India who think that Zakir Naik was a victim due to his identity. There is some truth in this assertion. There are many god-men in other religious traditions who have been accused of money laundering and other more grievous charges. And yet the prosecution against them have moved at snail’s pace or in some cases not started at all. But the alacrity at which Zakir Naik’s case was taken up the by government did point to the fact that there were other considerations at play. However, for those Indian Muslims supporting Zakir Naik, this should not become an excuse to absolve him of the very content and implications of preaching. The fact that he might be the victim because of his identity does not mean that we should support the content of his preaching.
He had regressive views about people of alternative sexualities, other religious traditions and certainly women. Naik’s Islam was about supremacy over all other religions and certainly he did not mince his words. He argued that this is the correct position because the Quran had ordained it to be so. He exhorted that Islam is the final and perfect religion and that Muslims will one day rule over the planet. It is due to this Islamic supremacy that he wanted apostates to be killed but certainly put a gloss over its interpretation. He argued that Islam does not say that apostates should be killed. But when the person (the apostate) starts preaching his own religion or ideology (which is different from Islam), then he is liable to be killed. He might have thought that he is putting a clever gloss but then it is no brainer to understand that he is exhorting Muslims to kill any dissenter within Muslim society who has a different point of view on Islam. He similarly argued that homosexuals should not be killed right away but if they start ‘exhibiting’ this lifestyle in public, then they should be killed. Thus in his version of Islam, people (including Muslims) were not free to profess their ideas and actions in public. This kind of robotic Islam can only produce Muslims who will be happy to revel in their un-freedom.
His so called inter-religious debates was again hardly mature. Always eager to prove that other religion were ‘false’, he targeted his opponents with half-baked knowledge of other religious scriptures, mostly cherry picking lines within their holy texts without understanding the whole context. Thus, according to him, Hinduism was essentially monotheistic because a line within the Gita said so. He claimed that he defeated his opponents (mostly Hindus and Christians) and his supporters cheered for him. In reality Zakir Naik defeated centuries old practice of Islam which debated its opponent with warmth and mutual respect. Zakir Naik was singularly responsible for painting a negative image of Islam at a time when news television had not yet started making fun of this religion. Through his poor and boorish arguments, he showed the world how regressive Islam had become. The secular media which toasted him from time to time, failed to ask tough questions like the implication of his lectures on the social fabric of India.
Those who cheered for him cannot be faulted as much. Through decades of impoverishment, Indian Muslims wanted a leader and in Zakir Naik they saw someone who could speak English and trounce his opponent’s arguments. In their collective schizophrenia, it was not Zakir Naik but the victory of an embattled community over another. But Naik cannot escape the blame. Being an educated Muslim, his responsibility was to steer the community towards the path of rationalism and science rather than induce some kind of a collective hallucination within the community. That he chose to do so (and make billions out of it) tells us of a man devoid of any commitment towards the betterment of Muslim society. That he was hounded out of India has certainly done good to the Muslim society as they are away from his poisonous lectures. His only hope now is to seek refuge in Saudi Arabia. I am certain he will be amongst his own kind in the holy land.
Arshad Alam is a columnist with NewAgeIslam.com

Does Maulana Tauqir Raza Barailvi Understand The Implications Of Triple Talaq Act? क्या मौलाना तौक़ीर रज़ा बरेलवी तीन तलाक़ कानून के निहितार्थ को समझते हैं? वह इस बात पर क्यों अड़े हैं कि अब भी तीन तलाक़ का अर्थ गैर रजई तलाक़ है?





Translated and transcribed by New Age Islam Edit Bureau
तीन तलाक़ बिल पर मौलाना तौकीर रज़ा और मौलाना अहमद रज़ा समनानी के बीच फोन पर बात चीत
मौलाना तौकीर रज़ा: तीन नहीं मानता था वह एक मानता था तीन कोl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: जी हुज़ूर
मौलाना तौकीर रज़ा: सही है ना
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: जी हुज़ूर बिलकुल सही फरमा रहे हैंl हुज़ूर तो वही मतलब जब मैं ने आज देखा तो मुझे आश्चर्य हुआ कि हज़रत का ऐसा बयान कैसे हो सकता है?
मौलाना तौकीर रज़ा: नहीं नहीं बिलकुल सही आया है जो आया हैl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: जी
मौलाना तौकीर रज़ा: ऐसा है कि हमारी लड़ाई यह थी कि तीन को तीन मानो वह कहते थे कि तीन नहीं एक है अब जब कि यह बिल आ गया है और उन्होंने यह कहा है कि तीन तलाक़ पर सज़ा दी जाए गी तो यहाँ तो उन्होंने तीन को तीन मां लिया ना तो हम तो यहाँ जीत गए अपनी लड़ाईl लोगों को इतनी सी बात समझ में नहीं आ रही हैl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: लेकिन हुज़ूर वहीँ पर यह बात भी तो आती है कि फिर वहाँ शादी टूटती नहीं तो फिर संबंध कैसे रहेंगे पति-पत्नी के बीच?
मौलाना तौकीर रज़ा: पति-पत्नी के संबंध कैसी बात करते हैं आप पढ़े लिखे आदमी हैं जब उसने तीन तलाक़ दे दी तो संबंध रखे गा कैसे?
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: नहीं हुज़ूर इस बिल में तो ऐसा है कि कोर्ट की तरफ से संबंध स्थापित हो सकता है फिर आने के बाद शादी बरकरार रह सकती हैl
मौलाना तौकीर रज़ा: नहीं नहीं जो इस्लाम का मानने वाला है शरई कानून का मानने वाला है तलाक़ देने के बाद उस पर बीवी हराम हो गईl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: जी बिलकुल सही फरमा रहे हैंl
मौलाना तौकीर रज़ा: तो सुनिए तलाक़ ए बिदअत पर उन्होंने बिल बनाया है तलाक़ ए अहसन और तलाक़ ए हसन पर नहीं बनाया है तलाक़ ए बिदअत जो नशे में और गुस्से में होती है और ऐसी तलाक़ पर हुजुर सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने भी नागवारी का इज़हार फरमाया था और हज़रत उमर के ज़माने में ऐसी तलाक़ पर कोड़े भी लगाए गए थे तो ऐसी तलाक़ वाले को अगर आज सज़ा दी जाती है तो हमारी लड़ाई तो यह थी कि नशे में भी या गुस्से में भी जैसे भी उसने तलाक़ दी तो तलाक़ हो गई यह लोग मानते थे लेकिन अब जब बिल आ गया तो उन्होंने यह स्वीकार कर लिया कि जो तीन तलाक़ दे उसको सज़ा दी जाए गी तीन साल की इसका अर्थ सज़ा तो वह तब देंगे ना जब तीन को तीन मां लेंगे बस हम तो अपनी लड़ाई जीत गए हमारी समझ में नहीं आता कि लोग विरोध क्यों कर रहे हैं समझ नहीं पा रहे हैं या क्या बात हैl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: इस बिल के विरोध में तो विशेषतः हमारे सईद नूरी साहब जो रज़ा एकेडमी के चेयर मैं हैं वह भी आए हैंl
मौलाना तौकीर रज़ा: कुछ लोगों को ऐसा होता है ना कि केवल दिखावा करना होता है हर मामले में धार्मिक भावना भड़का के भीड़ लगाना और फोटो खिचवाना और अखबारों में नाम छपवाना इस चीज का शौक होता है कुछ लोगों को विरोध अकारण हो रही है असल में उस चीज की हिमायत होनी चाहिए जिस चीज पर हमें ख़ुशी मनाना चाहिए हम उस पर नाराज़ हो रहे हैंl हम लड़ाई अपनी जीते हैं यह ज़ाहिर ऐसा कर रहे हैं जैसे हम हारे हैंl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: जी हुजुर अभी असजद रज़ा साहब का भी बयान आया था कुछ दिन पहले वह तो हमारे सुन्नियत की जामाज़ गाह हैंl
मौलाना तौकीर रज़ा: आप यह बताओ आप पढ़े लिखे आदमी हो आपकी क्या समझ में आता है इसमें?
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: मेरी सम्जः में तो यह आता है कि आज तक जो अन्याय हो रहा था महिलाओं के साथ तो इसमें कुछ ना कुछ तो सुधार आएगाl
मौलाना तौकीर रज़ा: आज तक जो अन्याय हो रहा था गैर ज़िम्मेदार तलाकें हो रही थीं नशे में तलाकें हो रही थीं सारे उलेमा और मुफ़्ती की जिम्मेदारी नहीं थी कि लोगों में जागरूकता पैदा करते कि यह काम मत करो यह गुनाह हैl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: बेशक उन्हीं का यह फेलयोर है जो आज यह हो रहा हैl
मौलाना तौकीर रज़ा: बच्चियों की जिन्दगी बर्बाद कर रहे थे अब हमें पति बन कर नहीं लड़की का बाप और भाई बन कर सोचना चाहिए हाँ यह लोग इनका मुझे समझ नहीं आता यह लोग क्या सोच रहे हैं और क्यों सोच रहे हैं और क्यों सोच रहे हैं और क्यों ऐसा कर रहे हैं सीधी बात यह है कि हम जितना विरोध करें यह बात सच है कि उन्होंने कानून जो बनाया है वह बनाया मुसलमानों की दिल आज़ारी के लिए ही है लेकिन अल्लाह तो जिससे चाहे काम ले ले ना हमारे मौलवी और हमारे उलेमा जो काम नहीं कर सके वह काम अल्लाह ने सरकार से ले लिया हमारी बच्चियों का भविष्य सुरक्षित होगा इससे और यह गैर ज़िम्मेदार तलाकों पर रोक लगे गीl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: लेकिन हुज़ूर आप जैसे लोगों से एक उम्मीद यह भी है क्योंकि आपके पास प्लेट फ़ार्म भी है और प्रभाव भी है हर तरह से तो आप से उम्मीद यह है कि आप एक रणनीति तैयार करें जैसा कि अभी कोर्ट ने कहा कि शादी नहीं टूटती इसके बाद फिर जब जेल से आएँगे तो जब कोर्ट के अनुसार शादी टूटी नहीं तो फिर वह अपने मायके जाएगी नहीं तो फिर वह अपने शौहर के ही घर रहे गी तो फिर ऐसी रणनीति तैयार करें जिससे हराम कारियाँ ना होंl
मौलाना तौकीर रज़ा: आप अभी भी बात को नहीं समझेl सज़ा तब होगी जब अपराध साबित हो जाएगा और जुर्म क्या हुआ कि तीन तलाक़ और तीन तलाक़ जब मां ली गई तो इसका अर्थ यह कि तलाक़ हो गई उसे सज़ा तभी मिलेगी जब तीन तलाक़ साबित हो जाए और यह सज़ा हज़रत उमर ने भी कोड़े लगा कर दी है और जब तलाक़ हो गई तो फिर उसके साथ रहने का कोई सवाल ही नहीं है बस इतना डर है कि तलाक़ हो जाने के बाद जब दोनों मजिस्ट्रेट के सामने जब दोनों हाज़िर होंगे तो मजिस्ट्रेट उन्हें समझाएगा कि सुलह कर लो तो डर यह है कि पति जो कि तलाक़ दे चुका है वह सज़ा के डर से कहीं समझौता ना कर ले तब हराम कारी होगी अगर पति समझौता कर लेगा समझ रहे हैं आप लेकिन यह हराम कारी कानून ने नहीं कराई यह वह मुसलमान कर रहा हैl और फिर ऐसे मुसलमान लापरवाही गैर जिम्मेदारी असल में हमारी हैl क्योंकि भारत का बच्चा बच्चा जानता है कि शराब पीना हराम है फिर भी शराब मुसलमानों में आम होती जा रही है जिम्मेदार कौन है? यह बिलकुल ऐसा ही हैजैसे हम यह कहें शराब पर प्रतिबंध लगाया जाए शराब बेचना बंद किया जाए ताकि हमारे बच्चे सुरक्षित हो जाए हम अपने बच्चो को नहीं रोक पा रहे हैं तो हमारी गलती है ना हम शराब बेचने वाले की गलती बटा रहे हैंl असल में शराब बेचने वाले की गलती नहीं गलती हमारी है कि हम अपने बच्चों को रोक नहीं पा रहे हैंl बिलकुल ऐसे ही यह लोग इस तलाक़ बिल के साथ कर रहे हैं कि बिल के खिलाफ मुहिम चला रहे हैं बल्कि उनको अपने बच्चों को तलाक़ से रोकना चाहिएl ऐसी कोई मुहिम नहीं चलाते सरकार के खिलाफ मुहिम चलाने का क्या अर्थ मुहिम चलाए अपने बच्चों में जागरूकता लाए अपना काम चाहते हैं कि सरकार करे भाई यह शराब की दुकानें बंद कराने से काम नहीं चलेगा जब तक हम खुद अपने बच्चों को नहीं रोकेंगे बच्चे नहीं रुकेंगेl
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: हुज़ूर मैं आपसे क्षमा चाहता हुए इस बात की तहकीक करना इसलिए चाहा कि कई हमारे लोग ऐसे हैं जो आपके पार्टी से जुड़े हुए हैं पिछली बार आप हमारी constituency से चुनाव भी लड़े थेl
मौलाना तौकीर रज़ा: कहाँ से हैं आप?
मौलाना अहमद रज़ा समनानी: बएसी पुरनिया से हूँ मैं हुज़ूरl मैं आपका एक छोटा से सेवक हूँ बहोत सारे लोग हम से जुड़े हुए थे और लगभग ३०% वोट मैंने आपकी पार्टी को दिलवाया थाl लोग धरना प्रदर्शन करने वाले थे कि हज़रत ने ऐसा ऐसे बोल दिया जब कि सारे उलेमा खिलाफ थेl मुझे आपसे तशफ्फी बख्श जवाब मिलाl

Why the Message of the 7th Century Quran Is Eternally and Universally Valid



By Naseer Ahmed, New Age Islam
28 August 2019
Animals of the species homo first appeared about 2.5 million years ago. Except for the estimated last seventy thousand years, they did not stand out from other animals such as monkeys, cats or cows. This period before history or before there could be a meaningful history, is mentioned in verse (76:1) of the Quran as:” Has there not been over Man a long period of Time, when he was nothing - (not even) mentioned? “. This long period of undistinguished existence is a story unlike that of every other living organism. 
The behaviour of animals is determined to a large extent by their genes and to a very small extent by conditioning and idiosyncrasies. Different social behaviours found among different species and sub-species is genetically determined. For example, chimpanzees live in hierarchical groups headed by an alpha male. Bonobos live in more egalitarian groups dominated by female alliances. The two closely related sub-species are incapable of learning from the behaviour of the other or by social conditioning. Changes in behaviour that would make a chimpanzee behave like a bonobo or vice versa can occur only if their DNA changed. For similar reasons, pre-historic humans did not change during the very long pre-historic period. Two million years ago, genetic mutations resulted in the appearance of a new human species called Homo erectus. This species distinguished itself by developing and using tools made out of stone. Homo erectus did not undergo further genetic alterations for 2 million years because of which its stone tools remained the same. Significant changes in social behaviour among all other species except modern humans are possible only with genetic mutations.
What Noah Harari calls “the Cognitive Revolution “occurred 70,000 years ago with the creation of Adam. This creation is so different from any other species that it can be considered a new species. The progeny of Adam have been able to change their behaviour quickly, transmitting new behaviours to future generations without any need of genetic or environmental change. While the behaviour patterns of pre-historic humans remained fixed for millions of years, the progeny of Adam could transform their social, political and economic structures several times within one’s lifetime. Yuval Noah Harari, in his book “Sapiens” gives the following example: “Consider a resident of Berlin, born in 1900 and living to the ripe age of one hundred. She spent her childhood in the Hohenzollern Empire of Wilhelm II; her adult years in the Weimar Republic, the Nazi Third Reich and Communist East Germany; and she died a citizen of a democratic and reunified Germany. She had managed to be a part of very different socio-political systems, though her DNA remained exactly the same.” This is how different the progeny of Adam is from every other creation.
While the social behaviour of animals is instinctive or built into their DNA, in the case of the progeny of Adam, it is learned. Humans have enormous capacity to transform through learning and unlike every other creation; they are not complete slave even to their instincts. Allah’s revelations through the ages have played an exclusive role in the learning to control instincts to behave as “moral agents”. Humans are the only species with the cognitive ability to choose what they believe to be right over what gives them pleasure or what avoids pain. The transformation from the creation of Adam to reaching a level of maturity when compulsion was no longer necessary to make man behave as a moral agent, took roughly 70,000 years and culminated with the revelation of the Quran to Muhammad (pbuh) the last and the seal of the prophets. The Quran contains the “perfected and complete religion”(5:3). There are parts that are confirmation of what came before and indeed the Quran can be looked upon as a collection of the best practices of all its prophets and People of Virtue.
“….and guide you to the [good] practices (Sunana) of those before you” 4:26.
Nothing is said to you that was not said to the apostles before you 41:43.
“This Qur´an is not such as can be produced by other than Allah; on the contrary it is a confirmation of (revelations) that went before it, and a fuller explanation of the Book - wherein there is no doubt - from the Lord of the worlds.” (10:37)
If the Quran contains the perfected and the complete religion as per verse 5:3, then what is found in the previous scriptures but not in the Quran is abrogated.
None of Our revelations do We abrogate or cause to be forgotten, but We substitute something better or similar: Knowest thou not that Allah Hath power over all things? (2:106)
God created Adam, distinct from every other creation, with astounding cognitive abilities, and guided this creation through revelations, from an existence not very different from that of animals, to a stage when the final,perfect, and complete religion could be revealed in accordance with the full human potential determined by the genetic make-up of this species, which has not changed since the creation of Adam and will not change till doomsday. This is why the Quran is eternal and unchanging and will remain so till the end of time.
Naseer Ahmed is an Engineering graduate from IIT Kanpur and is an independent IT consultant after having served in both the Public and Private sector in responsible positions for over three decades. He is a frequent contributor to NewAgeIslam.com