Pages

Friday, January 30, 2015

A Journey to the Eternal Life ابدی زندگی کی طرف ایک سفر

A Journey to the Eternal Life ابدی زندگی کی طرف ایک سفر






  
ہارون یحیی کی طرف
5 دسمبر 2014
ذرا تصور کریں کہ آپ ایک بہت بڑے ریلوے اسٹیشن کے بیچ میں کھڑے ہیں۔ نوجوان، بوڑھے اور بچے تمام کے تمام جلدی میں ہیں۔ وہ تمام کے تمام ایک ہی ٹرین پر سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے کہ ان تمام کو ایک ہی سفر پر جانا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے تمام سامان سفر کو احتیاط کے ساتھ باندھ لیا ہے۔ وہ  اس بات سے بے خبر ہیں کہ انہیں سفر کے اختتام تک ان میں سے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کچھ لوگ اپنے خاندان والوں کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اس سفر سے واپس ہی نہیں ہو پائیں گے۔ لیکن ہم ان لاکھوں مسافروں میں سے کچھ ہیں جو وقت آنے پر اسی ٹرین پر سوار ہوں گے۔ ہم وہاں کھڑے رہتے ہیں اور اس ٹرین کے منتظر ہوتے ہیں جو ہمیں آخرت میں ہماری ابدی زندگی کی طرف لے جائے گی، وہ ٹرین جس پر ہمیں  ایک دن سوار ہونا ہے۔
سفر کے اختتام پر موت ہے اور ایک فرشتہ ہم سے ملنے والا ہے۔ ہم سب اپنے ساتھ کتابیں لے جاتے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اگر ہم ٹرین کے سفر کو وہ مختصر زندگی سمجھیں جو ہم اس دنیاوی زندگی میں گزارتے ہیں تو اس سفر پر ہم جو بھی کرتے ہیں وہ سب کچھ، ہمارے تمام گناہ  اور نیکیاں مکمل تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں تحریر کی گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ان سے غافل ہوں لیکن فرشتے احتیاط کے ساتھ  ہر وہ لفظ تحریر کرتے ہیں جو ہم بولتے ہیں  اور ہر قدم پر ہمارے تمام گناہوں اور نیکیوں کو لکھ اس میں لکھتے ہیں۔ اس کتاب کا کھلنا ایمان والوں کے لئے سب سے بڑی خوشخبری ہے اس لیے کہ مومنوں نے اس مختصر سی زندگی کو اچھے اعمال، عبادت اور نمازسے بھر دیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اس سفر کا اختتام موت پر ہے جس کے بعد آخرت کی ابدی زندگی شروع ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ مومن اپنے رب کے حضور مکمل ایمان اور اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ کھڑاہوتا  ہے:
"سو جسے اس کا نامہٴ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وه کہنے لگے گا کہ لو میرا نامہٴ اعمال پڑھو، مجھے تو کامل یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے"۔ (سورہ الحاقہ، 19-20)
دوسری طرف کافر ٹرین کے اس سفر کا آغاز بڑی خوشی کے ساتھ کرتے ہیں اس لیے کہ وہ شیطان کے دھوکے میں آکر اس دنیا کی رنگ رلیوں میں گم ہو گئے ہیں۔ ان کے سفر میں نفس کشی اور تقویٰ کی کوئی کوئی تربیت نہیں دی جاتی اور نہ تو ان کے سفر میں کوئی مذہبی پابندی  ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خدا پر کوئی بھروسہ یا توکل ہوتا ہے۔ اور وہ نامہ اعمال جو غفلت میں وہ لے جا رہے ہیں لامحالہ سفر کے اختتام پر کھول دیا جائے گا اور اس سفر کا ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ اس کتاب میں لکھا ہوگا:
"اور نامہٴ اعمال سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم وستم نہ کرے گا۔"(سورہ کہف، آیت 49)
در اصل جو آپ لاکھوں لوگوں کو اپنے ارد گرد گھومتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اسٹیشن پر چاروں طرف گھومنے والے جھوٹے اور ریاکار لوگوں سے بھرا ہوا ایک بہت بڑا ہجوم ہے۔ یہ اتنا بڑا ہجوم ہے کہ لوگ اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لیکن خدا کا چہرہ دیکھنا بھول جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور دوستوں کی باتیں ان کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ اس دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہو چکے ہیں کہ ان کی باتوں کا موضوع دنیاوی امور ہی ہوتے ہیں۔ وہ اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ وہ کس طرح مال و دولت کماتے ہیں، کس طرح وہ اپنے بچوں کو بہترین اسکولوں میں تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں اور کس طرح انہوں نے دولت اور عہدے حاصل کیے؛ جب کہ انہیں اس بات کا خطرہ بھی نہیں گزرتا کہ انہیں ان تمام مال و اسباب کو اسی اسٹیشن پر چھوڑ دینا ہوگا جہاں وہ رکیں گے۔ وہ یہ نہیں جانتے سفر کے ختم ہونے پر انہیں خدا سے ہی ملنا ہے۔
"پس آپ (بھی) انہیں ان کی غفلت میں ہی کچھ مدت پڑا رہنے دیں، کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اوﻻد بڑھا رہے ہیں، وه ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں! "(سورہ المومنون، آیت 54- 56)
جبکہ دوسری طرف اہل ایمان اس ٹرین پر  گہرے اعتماد، اطاعت شعاری اور خلوص دل کے ساتھ سوار ہوتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ سفر بہت ہی مختصر ہے۔ اس دنیا کی مختصر سی زندگی میں خدا انہیں مشکلات اور بیماریوں سے آزمائے گا اور وہ ان آزمائش کا جواب صبر اور نیکی کے ساتھ دیتے ہیں۔ ان کا سفر اچھے کام، نماز اور عبادت سے بھرا ہوا ہوگا۔ انہیں اپنے پیچھے مال و دولت، عہدوں، عزیز و اقارب، دوستوں اور بچوں کو بھی چھوڑنا ہوگا اس لیے کہ اس سفر کے اختتام میں سرد زمین اور ایک سفید کفن ان کے انتظار میں ہے۔ چونکہ وہ اس سے آگاہ ہیں اسی لیے انہیں اس دنیا کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور انہیں یہ معلوم ہے کہ اس دنیا کی زندگی لالچ اور خواہش کی جگہ نہیں ہے۔ اس سفر کے اختتام پر جو وہ سچے دل اور گہرے ایمان کے ساتھ پورا کرتے ہیں جنتی باغوں کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔
"اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے"(سورۃ العنکبوت، آیت 64)
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی ایک شخص بھی اس اسٹیشن کا انتظار کرنے اور اس ٹرین میں سوار ہونے سے نہیں بچ سکتا۔ وہ تمام لوگ جنہیں ہم اس دنیا کی زندگی میں اس قدر اہمیت دیتے ہیں اس ٹرین پر سوار ہوں گے، اور سفر کے اختتام پر ان انتہائی اہم لوگوں کے لاکھوں اجسام محض ایک مٹھی مٹی بن کر رہ جائیں گے۔ اس لیے کہ ان لاکھوں لوگوں کے جسم سفر ختم ہونے پر زمین میں دب جائیں گے اور ان کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گی اور ان کا کوئی نشان بھی باقی نہ رہے گا؛ باقی رہنے والی شئی صرف اللہ کے سامنے خوف میں جھکنے اور مغفرت کی آس رکھنے والی روح ہے۔
"سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے۔" (سورہ الفرقان، آیت 70)
ماخذ:
http://www.arabnews.com/islam-perspective/news/669721

0 comments: