Maintenance of Divorced Pregnant Wife, And the Offspring: Essential Message of Islam مطلقہ حاملہ بیوی اور اس کی اولاد کی دیکھ بھال کا حکم: اسلام کا اصل پیغام
محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
25 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
ایک واضح آیت (2:233) میں قرآن حسب ذیل باتوں کی توضیح کرتا ہے:-
I) ایک حاملہ بیوی کو طلاق دینے والے شخص کی سماجی اور مالی ذمہ داریاں،
II) اس کی مطلقہ بیوی کی اخلاقی ذمہ داری،
III) اگر وہ اپنے بچے کو رضاعی ماں کی دیکھ بھال میں رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان دونوں کے درمیان باہمی مشاورت کی ضرورت،
IV) اور والد کی وراثت کی ذمہ داری اگر بچہ مردہ پیدا ہو تو (2:233)۔
‘‘اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے’’(2:233)۔
قرآن ایک مطلقہ حاملہ بیوی کی مدد کرنے کی مرد کی ذمہ داری کے متعلق اپنے احکام کی مزید تشریح کرتا ہے(65:6)، اور اس بات کی توضیح کرتا ہے کہ انہیں اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے (65:7)۔
"تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی (65:6)۔ صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا"(65:7)۔
34.6. اگر مہر مقرر نہیں تھا اور نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی طلاق ہو گئی تو مہر کا تصفیہ
اگر نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی طلاق ہو گئی ہو تو قرآن مردوں کو اپنی مطلقہ بیویوں کو ایک معقول رقم دینے کی ہدایت دیتا ہے۔(2:236، 33:49)
"تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، (بہر طور) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے"(2:236)۔
"اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو (33:49)۔
قرآن کی آیت 2:236 میں شادی کی مہر کے لیے آیت 4:4 میں لفظ صدقات کے بجائے فریضۃ کا استعمال کیا گیا ہے (باب 33.4)۔ اول الذکر سے مہر کی فرضیت کی طرف اشارہ ملتا ہے جبکہ مؤخر الذکر سے مہر کے تحفہ یا صدقہ ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس طرح، قرآن مہر نکاح کی قانونی حیثیت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں چھوڑتا کیوں کہ یہ ایک مرد کی جانب سے اس کی بیوی کے لیے ایک مذہبی فریضہہ ہے، اور اس کی ادائیگی خیر سگالی یا صدقہ کی صورت میں کی جاتی ہے۔
34.7. مہر مقرر تھا اور نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی طلاق ہو گئی تو مہر کا تصفیہ
قرآن کا اعلان ہے:
"اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کردے)، اور (اے مَردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بیشک اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (2:237)"
اوپر پیش کی گئی عام صنفی ضمیر الذی کا ترجمہ ‘وہ’ کیا جاتا ہے اور روایتی طور پر اسے صرف شوہر ہی کے ساتھ خاص رکھا جاتا ہے اور مراد یہ لیا جاتا ہے کہ نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی شادی ختم کرنے کا حق صرف مرد کو ہی ہے۔ لیکن یہ مجبور کن حالات میں یک طرفہ طور پر رشتہ ازدواج کو منقطع کرنے کے ایک عورت کے قرآنی استحقاق کو منسوخ کرنے کے لئے ہے (2:229 / مندرجہ بالا 34.2)۔ لہذا ضمیر الذی کا ترجمہ عام صنفی ضمیر کی شکل میں کیا جانا چاہیے جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ زوجین میں سے کوئی ایک بھی قانونی طریقے سے غیر منعقدہ نکاح کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس بنا پر، آیت میں مذکورہ حکم سے مندرجہ ذیل سادہ اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں:
· اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اسے اپنی بیوی کو نصف مہر ادا کرنا ضروری ہے ، جب تک کہ وہ اسے معاف نہ کردے۔
· اگر کوئی عورت اپنی طرف سے رشتہ ازدواج کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اس نصف مہر پر اپنے دعوی سے دست بردار ہو جانا چاہئے جو شوہر کی جانب سے طلاق دیئے جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتا۔
· طلاق دینے والے ایک مرد کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ وہ سخاوت (فضل) کے طور پر بقیہ نصف حصہ بھی چھوڑ دے اور اپنی بیوی کو مہر کی مکمل رقم ادا کر دے۔
· طلاق کے دونوں شراکت داروں کو ایک دوسرے کے تئیں سخی ہونا چاہیے، اور انہیں ایک دوسرے کا استحصال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
34.8. طلاق شدہ عورت کی دیکھ بھال
قرآن کا اعلان ہے:
اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے (2:241)۔ ا سی طرح اﷲ تمہارے لئے اپنے احکام واضح فرماتا ہے تاکہ تم سمجھ سکو (2:242)۔
قرآن کا حکم وسیع تر معنوں میں ہے: یہ ایک مرد کو یہ حکم نہیں دیتا ہے کہ اسے صرف ایک مرتبہ رقم دینا ضروری ہے ، اور اسے اس بات کا بھی حکم نہیں دیتا کہ اس پر اپنی مطلقہ بیوی کے نان و نفقہ کا انتظام کرنا اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ دوسری شادی نہیں کر لیتی۔ تاہم، قرآن مردوں کو عقل کا استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی مرد اس عورت کے لیے اپنی آمدنی کے مطابق نان و نفقہ کا انتظام کرتا ہے جسے اس نے نکاح منعقد ہونے سے پہلے ہی طلاق دے دیا تھا (2:236 / مندرجہ بالا 34.6)، تو اسے اس عورت کو طلاق دینے میں منصفانہ اور محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے جسے وہ ایک شوہر اور بیوی کے طور پر ساتھ رہنے کے بعد طلاق دے رہا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کے لیے اپنی آمدنی کے مطابق عائلی سطح پر اس کی مالی کی ضرورت، عمر، صحت اور اپنی بیوی کے حالات کے مطابق نان و نفقہ کا انظام کرے۔ یہ امر واضح ہے کہ کسی طلاق کے معاملے میں کیس کی نوعیت، مروجہ سماجی حالات اور تحفظات اور شراکت داروں کے رشتہ داروں کی مالیاتی حالت پر انحصار کرتے ہوئے اس پر فیصلہ دینا عدالت کا کام ہے۔
34.9. عدت کی وضاحت
قرآن کا حکم ہے کہ عدت کا درست طریقے سے مشاہدہ کیا جانا چاہئے (65:1)، اور عدت کی مدت ان خواتین کے لیے بھی تین مہینے ہی رہے گی جن کا حیض آنا بند ہو گیا ہے، یا جن کے ماہانہ ایام حیض ابھی نہیں آئے ہیں(4:65) اور حاملہ خواتین کے لئے عدت کی مدت وضع حمل تک ہے (65:4)۔
"اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔(65:1)"۔
"اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے (65:4)۔ یہ اللہ کا امر ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل فرمایا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ اُس کے چھوٹے گناہوں کو اس (کے نامۂ اعمال) سے مٹا دیتا ہے اور اَجر و ثواب کو اُس کے لئے بڑا کر دیتا ہے (65:5)۔
34.10. قرآن اپنے احکامات کی کسی بھی تحریف کی پہلے ہی پیش بندی کرتا ہے
طلاق کے باب میں دو مختلف ادوار سے متعلق قرآنی احکامات، جن میں سے آیت 2:226 سے 242 تک کی کا تعلق ابتدائی مدنی ادوار سے ہے اور آیت 65:1 سے لیکر 7 تک کا تعلق وسطی مدنی ادوار سے ہے، جن میں طلاق کے دوران ایک شوہر کی ذمہ داریوں کو پوری وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس باب میں قرآنی احکام کا بار بار وارد ہونا اس موضوع پر احکام و ہدایات کی بعد کے علماء کو کسی بھی غلط ترجمانی سے روکنے اور اس موضوع پر کسی بھی ابہام اور خفا کو ختم کرنے کے لیے ہے۔
مختصر یہ کہ قرآن طلاق کے عمل کو ایک متوازن اور ہم آہنگی کے انداز میں پیش کرتا ہے، تاکہ ایک انسان کی زندگی کے سب سے زیادہ اذیت ناک تجربہ کا سامنا ایک متوازن اور منظم انداز میں کیا جا سکے، اور روجین کے درمیان کوئی تلخی اور ایک دوسرے کے تئیں کوئی غلط جذبات نہ رہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/books-and-documents/muhammad-yunus---ashfaque-ullah-syed/against-unlawful-intimacy--essential-message-of-islam--chapter-34-to-36/d/104366
0 comments:
Post a Comment