سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
1 ستمبر 2015
پوری دنیا کے اکثر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر کے 120 علماء نے ڈاکٹر ابراہیم عواد البدری عرف ابو بکر البغدادی اور ‘‘اسلامی ریاست’’ کے جنگجوؤں اور پیروکاروں کو ایک کھلا خط بھیجا ہے۔
14 ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل یہ ایک بیش قیمتی دستاویز ہے۔ اس میں اس بات کی توضیح کی گئی ہے کہ خلیفہ البغدادی کے احکام میں غلط باتیں اور باطل عناصر کیا کیا ہیں۔ لیکن، سب زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موجود دور میں اعتدال پسند اسلام میں کیا کیا نقص ہے؛ یہ تردیدی تحریر کیوں مؤثر نہیں ہو گی، اور اس جیسے دیگر تردیدی بیانات بھی کیوں غیر مؤثر ہوں گے؛ اور کیوں ہمارے بچے ISIS اور دیگر دہشت گردی کے مراکز کی طرف اپنا رخ کرتے ہی رہیں گے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعتدال پسند علماء کے اس فتوی میں تو در حقیقت اعتدال پسند اسلام کو پیش کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
کوئی بھی 16 سالہ نوجوان 14 ہزار الفاظ پر مشتمل اس دستاویز کو مکمل نہیں پڑھے گا۔ بلکہ ان کے ذہنوں پر حسب ذیل اقتباسات کا اثر ہوگا جنہیں پرتشدد اسلامی نظریات کے حمایتی غلط طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں:
‘‘...........قرآن کے تمام احکام حق اور تمام مستند احادیث منزل من السماء ہیں۔’’
یہ اعتدال پسند علماء کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ دہشت گرد نظریہ ساز اپنے شاگردوں کو جن باتوں کی تعلیم دے رہے ہیں وہ درست ہے۔ ان کی دلیل یہی ہے۔ قرآن و حدیث کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؛ وہ دونوں الہامی ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت اسی قدر اچھی ہے جس قدر دوسری آیت اچھی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک حدیث اسی قدر اچھی ہے جس قدر دوسری حدیث اچھی ہے۔ یہ تمام ناقابل تغیر، عالمگیر اور ہر زمانے کے لئے ایک ابدی ہدایت کا مصدر و منبع ہیں۔ فتوی میں صرف ایک مقام پر یہ کہا گیا ہے کہ "قرآن کی کسی مخصوص آیت کو اس ایک واقعہ کے تناظر میں پیش کرنا جائز نہیں ہے جو اس آیت کے نزول کے 14 سو سالوں کے بعد پیش آیا ہے"۔ لیکن یہ دہشت گردی نظریہ ساز اس بات پر زور نہیں دیں گے۔ بلکہ وہ ان باتوں پر زور دیں گے جن پر ان لوگوں سمیت جو خود کو اعتدال پسند سمجھتے ہیں تمام مکاتب فکر کے علماء کے درمیان اتفاق رائے ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں الہامی ہیں اور یہ تمام"سچ" کی نمائندگی کرتے ہیں(اگرچہ انہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے سینکڑوں سال بعد جمع گیا گیا تھا)۔ اس سے ہمارے 16/20 سالہ بچوں کا اعتماد اس امر پر بحال ہو گا کہ ہم دہشت گردی کے دستورالعمل میں جو بھی سیکھ رہے ہیں وہ تمام باتیں درست ہیں اور انہیں اعتدال پسند سمیت تمام علماء کی ایک آفاقی مقبولیت حاصل ہے۔
اسی طرح کھلے خط کے باب 13 - جبر اور مجبوری کے باب میں اعتدال پسند علماء کا کہنا ہے کہ: "یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آیت: (لا اکراہ فی الدین) مفہوم 'دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے' فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی، لہذا، کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے"۔ اس کے بعد اس فتوی میں جبر و اکراہ کے استعمال کے لئے بغدادی کی تنقید کی گئی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اعتدال پسند علماء نے بھی اپنے فتوی میں بغدادی کی بنیادی دلیل کو تسلیم کر لیا ہے، لہٰذا، فتح مکہ سے پہلے نازل ہونے والی پرامن مکی آیات منسوخ ہو چکی ہیں، یا کم از کم انہیں منسوخ کر دیا گیا ہوگا اور اب جنگ سے متعلق عسکریت پسندی پر مبنی آیات کی ترویج و اشاعت کی جانی چاہیے۔
بہر حال یہ بات غلط ہے کہ "آیت: (لا اکراہ فی الدین) مفہوم: 'دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے' فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی"۔ در اصل اس کا نزول مدینہ میں اس وقت ہوا جب کچھ مسلمانوں نے مدینہ سے ہجرت کرنے کے بعد یہودیوں کی تحویل سے اپنے بچوں کو واپس لینے اور انہیں اسلام میں داخل کرنے کا ارادہ کیا۔ لہٰذا، ان اعتدال پسند علماء اور ان لوگوں کے مطابق جو اس آیت کی اصل شان نزول سے واقف ہیں، یہ آیت بھی منسوخ ہے۔ کیا اب بھی اعتدال پسند اسلام کے لیے کوئی بنیاد باقی رہ جاتی ہے؟
قرآن کی اس آیت کا شان نزول تفسیر ابن کثیر کی رو سے: "روایت کی جاتی ہے کہ اس آیت کے نزول کی وجہ انصار تھے، اگر چہ معنیٰ کے اعتبار سے اس کے مضمرات عام ہیں، ابن جریر نے روایت کی کہ ابن عباس نے کہا کہ اسلام سے پہلے ایک انصار عورت تھی جس کا بچہ زندہ نہیں بچتا تھا تو اس نے یہ قسم کھائی کہ اگر اس نے ایسا بچہ جنا جو زندہ بچ گیا تو وہ اس کی پرورش ایک یہودی کے طور پر کرے گی۔ جب ایک یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ سے نکال لیا گیا تو انصار کے کچھ بچے ان کے درمیان پرورش پا رہے تھے، تو انصار نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے درمیان نہیں چھوڑیں گے۔ تو اس پر اللہ نے اس آیت کو نازل کیا: لا إكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغي
''(دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بے شک حق باطل سے ممتاز ہو گیا۔)
پوائنٹ 16۔ حدود (سزا) کے باب میں، کھلے خط کی شکل میں اعتدال پسند علماء کے فتوی میں ایک عام اصول یہ قائم کیا گیا ہے کہ: "حدود کا بیان قرآن اور حدیث میں متعین اور مبین ہیں اور بلا شبہ وہ اسلامی قانون میں واجب العمل ہیں" بغدادی کی بنیادی دلیل کو قبول کرنے کے بعد اس میں نام نہاد اسلامی ریاست میں اس کے نفاذ پر تنقید کی گئی ہے۔ جو کہ اس طرح ہے: "تاہم، ان کا نفاذ وضاحت، انتباہ، نصیحت اور خاطر خواہ دلیل قائم کیے بغیر ایک ظالمانہ انداز میں نہیں کیا جا سکتا۔" لیکن اگر آپ نے ایک مرتبہ 7ویں صدی کے اعرابی قبائلی عرب ثقافت پر مبنی حدود (سزا) کی بنیادی دلیل کو "اسلامی قانون میں بلا شبہ واجب العمل قانون" کی حیثیت سے قبول کر لیا تو اعتدال پسندی اور انتہاپسندی کے درمیان کیا فرق باقی رہ گیا۔
پوائنٹ 20 میں ایسا لگتا ہے کہ اعتدال پسند علماء نے بتوں کو توڑنے اور انہیں تباہ کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔ کھلے خط سے مندرجہ ذیل اقتباس کا مطالعہ کریں:
"آپ کے سابق رہنما، ابو عمر البغدادی نے کہا کہ: 'ہماری رائے میں شرک کی تمام علامتوں کو تباہ کرنا اور ان تمام ذرائع کو ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہے جو شرک کی طرف لے جاتے ہیں، اور اس کی بنیاد صحیح مسلم میں امام مسلم کی وہ حدیث ہے جسے انہوں نے پر ابوالہیاج الاسدی کی سند سے روایت کی ہے کہ علی بن ابی طالب نے فرمایا کہ: ‘‘کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتا دوں جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا ہے: کسی بھی بت کو مٹائے بغیر اور کسی بھی قبر کو سطح زمین سے ملائے بغیر نہ چھوڑا جائے ’’۔ اگر ان کی بات سچ ہو تب بھی اس کا نفاذ انبیاء یا صحابہ کی قبروں پر نہیں ہوتا اس لیے کہ صحابہ کرام کے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے دو صحابہ ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کو اس امارت میں دفن کرنے پر اتفاق رائے تھی جو مسجد نبوی سے ملحق ہے۔"
صراحتاً اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال پسند علماء صرف "انبیاء یا صحابہ کی قبروں" کو مسمار کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ شرک (بت پرستی) کی تمام علامتوں کو ختم کرنے کی مجوزہ ذمہ داری کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ معاصر دنیا میں بین المذاہب تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوئی بہت اچھی علامت نہیں ہے جہاں تمام مہذب ممالک اپنے مذہب پر عمل کرنے کے ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔
کھلے خط کے پوائنٹ 22 میں ‘‘خلافت’’ کے عنوان کے تحت ، اعتدال پسند علماء نے ایک بار پھر بغدادی گروہ کی بنیادی دلیل سے اس انداز میں اتفاق کیا ہے: "علماء کرام کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافت کا قیام امت کی ایک ذمہ داری ہے۔ تاہم، 1924 عیسوی کے بعد سے امت مسلمہ میں خلافت کا فقدان ہے"۔ اس کے بعد مسلمانوں کی اتفاق رائے کے فقدان کی وجہ سے اس میں البغدادی کی خلافت کی تنقید کی گئی ہے اور کافی سخت لب و لہجے میں اس پر بغاوت، فتنہ، وغیرہ کا الزام لگایا گیا ہے۔ لیکن اس میں بھی مسئلہ وہی ہے۔ اعتدال پسند علماء نے خلافت قائم کرنے کی امت کی نام نہاد ذمہ داری کی بنیادی دلیل پر بغدادی کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ یہ عصر حاضر میں ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اس سے یہ امر واضح ہے کہ بغدادی گروپ اور اعتدال پسند علماء دونوں یکساں طور پر پرانے ہیں جو بظاہر اب بھی 7ویں صدی عیسوی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن ایک معاملے میں البغدادی ان اعتدال پسند علماء سے بھی زیادہ انسانیت پسند اور مہذب ثابت ہوا ہے۔ بغدادی کے لئے کھلے خط میں پوائنٹ 23 کے تحت قومی وابستگی کے باب میں کہا گیا ہے کہ : "آپ نے اپنی ایک تقریر میں کہاہے کہ: شام شامیوں کے لئے نہیں ہے اور عراق عراقیوں کے لئے نہیں ہے54'۔ اور اسی تقریر میں آپ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ عراق اور مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں میں 'اسلامی ریاست' کے زیر تسلط علاقوں میں ہجرت کریں۔ ایسا کر کے آپ ان ممالک کے حقوق اور وسائل پر قبضہ کر کے انہیں ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیں گے جن کا اس زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر چہ وہ ایک ہی مذہب کے ہیں۔ اسرائیل نے بھی بیرون ملک یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی دعوت دیکر ایسا ہی کیا تھا، انہوں نے فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا اور ان کے آبائی حقوق اور زمین کو غصب کر لیا۔ لہٰذا، اس میں انصاف کہاں ہے؟"
کوئی بات صرف اس لیے غلط اور باطل نہیں ہو جاتی کیوں کہ اسرائیل ایسا کر رہا ہے۔ درحقیقت اسرائیل بہت سے اچھے کام بھی کر رہا ہے اور مسلمانوں کا بھی اس پر عمل کرنا بہتر ہو گا۔ اس معاملے میں صرف اسرائیل ہی تنہا نہیں ہے بلکہ لیکن پوری مہذب دنیا اپنے ممالک کے "حقوق اور وسائل" میں دوسروں کو شامل کرتی ہے اور ان کا اشتراک ان لوگوں کے ساتھ کرتی ہے "جو ان کی زمین پر اجنبی ہیں"، جنہوں نے ان ملکوں میں سیاسی پناہ گزین یا مہاجر کی کی حیثیت سے ہجرت کی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ممالک میں طالب علموں کو معیشت میں کوئی تعاون پیش کیے بغیر ہی کم از کم دو سال کے اندر ہی مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نامی "خالص اسلام" والی زمین سمیت وحشیانہ عرب ممالک میں اگر آپ نصف صدی تک بھی ملک کی خدمت کر دیں تب بھی آپ ان سے اس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ آپ کو ان سے گرین کارڈ یا مستقل رہائشی حیثیت حاصل ہو جائے گی، اور اگر ایک مرتبہ ان کی ضرورت ختم ہو گئی تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ کو اپنے ملک سے باہر کر دیں گے۔ لہٰذا اگر بغدادی کسی بھی قیمت پر ان لوگوں کو رہائشی حیثیت دے رہا ہے، جنہیں وہ اپنے لئے کام کرنے یا لڑنے کے لئے بلا رہا ہے تو وہ مہذب بن رہا ہے اور خود کو ایک عرب حکمران سمجھ رہا ہے، اور کسی بھی عرب حکمران کو ، خواہ وہ اسلامی ہو، سیکولر ہو، سیاسی ہو یا قومی ہو اس مہذب رویے کے لئے نہیں جانا جاتا ہے۔ اور یہاں اعتدال پسند علماء اس کے لئے اس کی تنقید کر رہے ہیں۔ وہ بظاہر اس معاملے میں عرب بربریت کی حمایت کر رہے ہیں۔
یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کھلا خط مکمل طور پر بیکار یا مکمل طور پر بر عکس نتیجہ برآمد کرنے والا ہے۔ اگر چہ اس میں کئی معاملوں میں ان کے مبادیات سے اتفاق کیا گیا ہے ، لیکن اس میں کم از کم، اسلامی اصولوں کے ناقص نفاذ کے لئے سخت انداز میں بغدادی اور اس کے گروہ پر تنقید کی گئی ہے۔ لیکن اس کھلے خط سے اس بات کی توقع کرنا بیکار ہے کہ یہ نام نہاد اسلامی ریاست کے لئے حمایت کو روکنے میں کامیاب ہو گا۔
تقریبا اسلامی تاریخ کے آغاز سے ہی انتہا پسندی اسلام میں موجود رہی ہے۔ مسلمانوں نے حدیث اور شریعت کی تخلیق سے پہلے ہی جنہیں وہ مقدس مانتے ہیں، آپس میں سخت جنگیں لڑی ہیں۔ مسلمانوں کو اب تک قرآن مجید میں موجود عسکریت پسندی پر مبنی آیات کا تریاق نہیں مل سکا ہے، جو کہ انٹرنیٹ کی مدد سے اب ہر کسی کو دستیاب ہے۔ قرآن کی تمام آیات کو ابدی قدر اور اہمیت و افادیت کا حامل قرار دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ حدیث اور شریعت کو الہامی قرار دینا آج کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔
مسلمانوں کو تشدد اور تفوق پرستی کی طرف لے جانے والی شریعت کو ترک کرنا ہوگا اور تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات کے مطابق امن اور تکثیریت پر مبنی ایک ایسی نئی شریعت بنانی ہوگی جو معاصر اور مستقبل کے معاشروں کے لئے موزوں ہو۔
0 comments:
Post a Comment