نصیر احمد، نیو ایج اسلام
5 اکتوبر 2015
قرآن مجید میں لفظ شہداء گواہ کے عام معنوں میں اور ایک معظم و مقدس معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ شہادت کس چیز کی دی جا رہی ہے۔
اس آیت پر غور کریں:
‘‘اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو’’(2:143)؛
مسلمانوں پر ایک گواہ کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس بات کی گواہی دینے کے لیے ہے کہ پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ مثال کے طور، آیات 5:109 سے 118 تک پڑھیں جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح یسوع مسیح (علیہ السلام) قیامت کے دن اس طرح کا ثبوت پیش کریں گے۔ جو لوگ امتوں یا رسول کے پیروکاروں کے درمیان دعوت کا کام کرتے ہیں وہ اس کے نتیجے میں اس بات کی گواہی دیں گے کہ پوری دنیا میں پیغام کو پھیلا دیا گیا تھا۔
‘‘اور صُور پھونکا جائے گا تو سب لوگ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں بے ہوش ہو جائیں گے سوائے اُس کے جسے اللہ چاہے گا، پھر اس میں دوسرا صُور پھونکا جائے گا، سو وہ سب اچانک دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے’’(39:68)۔
‘‘اور زمینِ (محشر) اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور (ہر ایک کے اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا’’ (69)۔
‘‘ہر شخص کو اُس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں’’ (70)۔
شہداء قول و عمل کے ذریعے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ ان کی زندگی، ان کے معمولات اور ان کا ہر عمل اللہ کے دین کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ اللہ، اس کی صفات اور اس کے مذہب کے بارے میں لوگوں کو دلیل فراہم کرتے ہیں، اور اسی کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں اور قول کرتے ہیں۔ وہ خدا کو اس بات کی گواہی یا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ اس کا پیغام مناسب طریقے لوگوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے ایک با کمال مثال ہیں۔ شہداء کا سب سے اعلیٰ طبقہ نبیوں اور ان لوگوں کا ہے جو اپنے قول و فعل کے ذریعہ مثالی انداز میں دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔
شہداء کی دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو مکمل طور پر سیکولر انداز میں انصاف کرتے ہیں۔ میرے مندرجہ ذیل مضمون میں اس پر گفتگو کی گئی ہے:
اسلام میں انصاف کرنے کی اہمیت
تیسرے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو زندگی کی تمام آزمائش اور مصائب و آلام کے وقت میں صبر و تحمل اور پورے عزم و استقلال کے ساتھ صراط مستقیم پر چلتے رہتے ہیں۔ انہیں جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ نہ تو کبھی دل برداشتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ آخر میں جب ان کا مقدر غالب ہونا ہوتا ہے تو یہ ایمان کی طاقت اور خدا کے وعدہ کے بارے میں حقیقت کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال حضرت ایوب (علیہ السلام) اور ان مسلمانوں کی ایک بہت ہی چھوٹی سی تعداد میں ملتی ہے جنہوں نے تمام مشکلات کے باوجود ابتدائی مکی دور میں خدا کے وعدے کی تکمیل میں طاقتور اہل مکہ پر فتح حاصل کر لی، جبکہ مسلمانوں کی تعداد نصف درجن سے بھی کم تھی۔
شہداء کو قیامت کے دن سب سے اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا جائے گا۔
کیا اللہ کی راہ میں مارے جانے والے لوگ شہداء کی صف میں شامل ہوں گے؟
اللہ کی راہ میں مارے جانے والے لوگ اس وقت تک شہداء کی صف میں شامل نہیں ہوں گے جب تک وہ شہداء کی مذکورہ بالا تین اقسام میں سے کسی ایک یا زیادہ میں نہ آتے ہوں۔ قرآن مجید میں 11 آیات ایسی ہیں جن کا موضوع اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے مرنے والے لوگ ہیں۔ ان آیات میں سے کسی میں بھی مقتول کو شہید یا شہداء کا نام نہیں دیا گیا ہے۔ ان آیتون میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کے لیے قتلو یا قتلو فی سبیل اللہ کا استعمال کیا گیا ہے، وہ آیات حسب ذیل ہیں:-
(2:154, 3:144, 158, 168, 169, 195-3:157, 4:74, 9:111, 22:58 اور 47:4)
لہٰذا، مقتول کو شہید کیوں کہا جاتا ہے؟ - اس کے لیے آیت 3:140 کی غلط ترجمانی کی گئی ہے!
‘‘اگر تمہیں (اب) کوئی زخم لگا ہے تو (یاد رکھو کہ) ان لوگوں کو بھی اسی طرح کا زخم لگ چکا ہے، اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں، اور یہ (گردشِ ا یّام) اس لئے ہے کہ اللہ اہلِ ایمان کی پہچان کرا دے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا رتبہ عطا کرے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا’’ (3:140)۔
اس آیت کا موضوع مقتول نہیں بلکہ جنگ احد میں زخمی ہونے والے وہ افراد ہیں جو منظرنامہ کے یکسر تبدیل ہو جانے کی وجہ سے مایوسی کی حالت میں تھے اور ان میں سے کچھ لوگ اپنے دین و مذہب کو کھو دینے کے دہانے پر تھے۔ انہیں مشکل وقت مین دل برداشتہ نہ ہونے اور عزم و استقلال سے کام لینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سخت مشکل اور آفت کے وقت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہے، اور بالآخر خدا کے وعدہ کی حقانیت پر گواہی وہی دے سکتے ہیں اس لیے کہ اللہ نے انہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کیا ہے۔ (مقتول نہیں بلکہ ) یہی لوگ "شہدا" کی صفوں میں شمولیت اختیار کریں گے۔ مردہ کوئی گواہی نہیں دے سکتا۔ اس معاملے میں ہمارے مردے اور دشمن کے مردے کے درمیان کیا فرق ہے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو تمام مشکلات کے خلاف صبر کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں اور بالآخر وہ غالب ہو جاتے ہیں، جس سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ خدا کا وعدہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ اسی لیے آیت 3:140 میں تیسری قسم کے شہداء کا ذکر ہے جن کا ذکر اوپر ہو چکا۔
اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے مرنے والوں کو اجروثواب حاصل ہوگا لیکن انہیں اس وقت تک شہداء نہیں کہا جائے گا جب تک کہ انہوں نے بھی زندگی کے تمام نشیب و فراز، مصائب و آلام اور آزمائشوں میں صبر و تحمل کا مظاہرہ نہ کیا ہو، اور موت سے پہلے، خدا کی بارگاہ میں شہید کا مقام نہ حاصل کر لیا ہو۔ کوئی بھی انسان زندگی میں ہی ایک شہید کا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے موت کے بعد نہیں ۔
تاہم، قرآن مجید کے بہت سے ترجمہ نگاروں نے آیت 3:140 پر شاید علماء کرام کی رائے پر عمل کرتے ہوئے میں شہداء کا ترجمہ "شہید گواہ" کر دیا ہے۔ مقتول کو شہداء کے زمرے میں ڈالنا واقعی سراسر فریب ہے اور اس بات کو سمجھنا آسان ہے کہ کیوں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے سیاستدانوں کے پر فریب حامیوں اور ملاؤں نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی ہے۔ شاید اس کا مقصد صرف دیگر ثقافتوں میں شہید کے تصور کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا اس لیے کہ اس طرح کا تصور اسلام معدوم ہے۔ یہ کوئی عام معاملہ بھی نہیں ہے اس لیےکہ علماء نے کسی بھی قسم کی پر تشدد موت کی شان و شوکت بیان کر کے مذہب کو مسخ کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک شخص کسی حادثے میں فوت ہو جائے تو اسے بھی شہید سمجھا جاتا ہے۔ ایک دانت گر جائے تو وہ کہتے ہیں کہ "دانت شہید ہو گئی"!
مقتول کے لئے قرآن مجید میں صرف لفظ قتلو کا استعمال کیا گیا ہے۔ اگر کوئی اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو تو اس کے لیے قتلو فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ انعامات صرف قتلو کے لیے نہیں بلکہ قتلو فی سبیل اللہ کے لیے ہیں لیکن پھر بھی انہیں شہدا کے درمیان شمار نہیں کیا جائے گا۔
صرف ایک آیت کی غلط تشریح کر کے جس میں مقتول پر گفتگو بھی نہیں کی گئی ہے، اور ان دیگر گیارہ آیات کو نظر انداز کر کے جن کا موضوع قتلو فی سبیل اللہ ہے، جن میں انہیں شہدا نہیں کہا گیا ہے، علماء نے خدا کی اجازت کے بغیر اور عقل کے خلاف مقتولوں کو شہداء کے مقام پر فائز کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی مقتول مسلمان کو "شہید" کہہ کر اس تصور کو مزید کمزور کر دیا گیا ہے۔ جب کسی حادثے میں بھی مرنے والے شخص کو بھی "شہید" قرار دیا جاتا ہے تو مروجہ تصور میں اس کے مقصد کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اب کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ لڑائی کا سہارا لیکر اللہ کا کون سا مقصد پورا کیا جا رہاہے۔ اب اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہےکہ تمام مقتول مسلمانوں کے لئے لفظ شہید کے غلط استعمال نے کس طرح آسانی کے ساتھ مرنے کے لئے تیار رہنے والے جوانوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے لئے علماء ذمہ ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے انہیں اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں: "3 ہجری میں احد کی جنگ کے دوران، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے 70 صحابہ ہلاک ہو گئے۔ یہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں موجود ہے جو کہ اس طرح ہے:۔ جنگ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر اصحاب ہلاک ہو گئے تھے۔ (صحیح بخاری، 4078)۔ اس مثال سے بھی یہی پتہ چلتا ہےکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں بھی خدا کی راہ میں مارے جانے والوں کو مقتول ہی کہا جاتا تھا، شاہد یا شہید نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، ان کے اصحاب کا دور اور ان کے بعد کی نسل کو اسلامی تاریخ کے سب سے مستند ادوار میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی خدا کی راہ میں قتل کیے جانے والوں کے لیے مقتول فی سبیل اللہ جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس دور کے بعد شہادت کے استعمال میں آہستہ آہستہ اسی طرح تبدیلیاں پیدا ہوتی گئیں جس طرح کئی دیگر اسلامی تعلیمات کی افہام و تفہیم میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں، اور اس حد تک اس میں تبدیلی پیدا ہوئی کہ مسلمان تقریبا اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ لفط شہادت کی وضع دعوت کے لیے ہوئی ہےاور اس کی بجائے انہوں نے اس اصطلاح کا استعمال شہادت کے ایک مترادف لفظ کے طور پر کرنا شروع کر دیا۔
بعد کے دور میں ایک نیا معمول یہ رواج پایا کہ جنگ میں مارے جانے والوں کو 'شہید کہا جانے لگا۔ "
خلاصہ یہ کہ شہداء کے صرف تین اقسام موجود ہیں، اور قیامت کے دن وہ سب سے پہلی صف میں ہوں گے۔ یہاں تک کہ خدا کی راہ میں مارے جانے والے لوگ بھی اس زمرے میں شامل نہیں ہیں۔ لہٰذا، انہیں شہید نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ یہ جھوٹ اور قرآن کے پیغام مسخ کرنے کے مترادف ہے جس کے نتائج برے ہوں گے۔
متعلقہ مضمون:
The Importance of Rendering Justice in Islam
URL for English article:
0 comments:
Post a Comment