گوکھان باسک
04 اکتوبر 2015
مسلم دنیا میں موجودہ مایوس کن صورت حال ایک مشہور سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا آج اسلام کو اصلاح کی ضرورت ہے؟
بے شک، اصلاحات کا نظریہ سب سے پہلے عیسائیت کی تاریخ میں پیدا ہوا تھا۔ اسلام میں اصلاحات کے مطالبہ کو عیسائی تاریخ سے تحریک ملی ہے: اصلاح کی وجہ سے ہی اس میں ترقی ہوئی۔
گارجین (Guardian) میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحریر میں مہدی حسن نے، اسلام کی اصلاح کے خلاف دلیل پیش کی ہے۔ ان کے لیے، "اسلام عیسائیت نہیں ہے۔ یہ دونوں مذہب ایک جیسے نہیں ہیں، اور اس کے خلاف کا قول کرنا انتہائی جہالت کی بات ہے۔"کچھ دوسرے لوگ بھی مہدی حسن کے اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اسلام اور عیسائیت مختلف ہیں، لہٰذا، عیسائیت میں جو بھی ہوا اس کی تجویز اسلام کے لئے نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہ نقطہ نظر ادارہ جاتی ہے، اور اس کی بنیاد اسلام اور عیسائیت کے درمیان موجود اختلافات پر ہے۔
جبکہ کچھ دوسرے لوگوں کے لئے، اسلام میں اصلاحات کا مطالبہ اصولی طور پر غیر معقول اور غیر منطقی ہے۔ جیسا کہ ایان ہرسی علی کا کہنا ہے کہ، "اس بات کا امکان نہیں ہےکہ مسلمان ان لوگوں کی جانب سے کسی بھی نظریاتی اصلاح کے مطالبہ پر کوئی توجہ دیں گے جنہیں وہ مرتد اور کافر شمار کرتے ہیں۔" روایتی اور قدامت پسند علماء نے اسلام میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والوں کو پہلے ہی گمراہ قرار دیا ہے۔
کسی موڑ پر پہنچ کر یہ استدلال ایک زبانی بیان بازی بن کر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ، "اصلاحات" کو مسترد کر دیا گیا ہے، لیکن اسلامی روایت میں تجدید و احیاء جیسے اس کے اپنے الفاظ ہیں۔ لہٰذا، مصلحین بنیاد پرستوں کی مذمت سے بچنے کے لئے ان الفاظ کی پناہ لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجدید کو ایک مضبوط مذہبی جواز حاصل ہے۔
آج کی مسلم دنیا میں "تجدید" اور ‘‘احیاء’’ جیسے الفاظ ہمارے لیے اصل اختلاف اور انتشار کا سبب ہیں۔ احیاء پسندوں کا یہ ماننا ہے کہ اسلامی اصول و نظریات کامل و اکمل ہیں، لیکن مسائل اس حقیقت سے پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایسے کامل مسلمان نہیں ہیں جو اس کے قوانین کی فرمانبرداری کریں۔ تجدیدی مکتبہ فکر براہ راست اس کے برعکس ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ خود مذہبی نظریات کی تجدید کی جانی چاہیے، اور یہاں تک کہ اس کی اصلاح بھی کی جانے چاہیے۔
احیاء اور تجدیدی مکاتب فکر کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں دو نکات پر غور کرنا چاہئے۔ سب سے پہلا پہلوں یہ ہے کہ اسلامی فکری تحریک برسوں سے جمود و تعطل کا شکار ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ متوازی سائنسی اور دیگر پیش رفت کے مطابق مذہبی نظریات کو اپ ڈیٹ کبھی نہیں کیا گیا ہے۔ یہ استدلال کہ: "اسلامی نظریہ کامل و اکمل ہے"، (مصنوعی سے الگ) تجزیاتی بیان کے منطقی ماڈل پر محض ایک بے سر و پا بات ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ، مذہبی تقوی کا عروج مسلم معاشروں کے اہم مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے۔ تجدیدی مکتبہ فکر کی سب سے اہم دلیل یہی ہے۔ احیائی مکتب فکر کے نمائندوں کی دلیل یہ ہے کہ متقی مسلمانوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی امت مسلمہ کے مسائل اتنے ہی کم ہوں گے۔ لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہے، اس لیے کہ ہم مذہبی کارکنان اور سیاسی گروہوں کو دیکھ رہے ہیں جو ملیشیا سے ترکی تک کرپشن اور دہشت گردی جیسے تقوی مخالف سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک خاص معنی میں، مسلم دنیا کے کئی بدعنوان رہنماؤں کی ہی طرح داعش کے ارکان بہت زیادہ نیک ہیں۔ اس سے احیاء کی اہم دلیل کی تردید ہوتی ہے۔ اس سے بھی بدتر حالت تو یہ ہے کہ، مذہبی لوگوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں مدد کے لیے اسلام کو ایک آلہ بنانا لیا ہے۔
گفتگو کا موضوع یہ عام فہم نظریہ ہونا چاہیے کہ اسلام خلائی ٹیکنالوجی کے معاملے میں امریکہ کو کیا عطا کرتا ہے؟ اسلام شہرکاری کے لحاظ سے ناروے کو کیا عطا کرتا ہے؟ اسلام سول اور جمہوری حقوق کے لحاظ سے سڈنی میں رہنے والی عورتوں کو کیا عطا کرتا ہے؟ اسلام عالمی ماحولیاتی تحریک کو کیا عطا کرتا ہے؟ اسلام حرفتی اخلاقیات کے لحاظ سے ڈینش معاشرے کو کیا عطا کرتا ہے؟
19ویں صدی میں تشکیل دی گئی اسلامی دعوۃ عمل پر مبنی تھی۔ اس کا مقصد ایک مذہبی نسل کو فروغ دینا تھا (یہاں "مذہبیت" سے مراد "عملی مذہبیت" ہے)۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اسلامی نظریہ کامل ہے، اور نقص صرف مذہبی لوگوں کے اندر ہے: لہٰذا اس نظریے کا مطالعہ کیا جائے! لیکن 21ویں صدی میں یہ بات واضح ہے کہ خود نظریے کو بھی تجدید کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی نسل کرپشن جیسے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ماخذ:
todayszaman.com/columnist/gokhan-bacik/reform-in-islam-is-it-possible_400564.html
URL for English article:
0 comments:
Post a Comment