ہارون مغل
25 ستمبر 2015
پٹرولیم اور حج
یہ دونوں چیزیں مل کر سعودی عرب کو اتنی توانائی فراہم کرتی ہیں کہ وہ دنیا کی ایک سب سے رجعت پسندانہ حکومت کی قیادت کرتا ہے جس سے اسے اسلام میں ایک زبردست اثر و رسوخ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہم اس کے متبادل کے بارے میں سوچیں۔
اب آپ کو یہ بات سمجھ میں آ چکی ہو گی کہ کیوں سعودی عرب عالم اسلام کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے کہ سعود خاندان کا تسلط مکہ پر ہے، جہاں مسلمانوں کا قبلہ ہےاور جہاں مسلمان حج ادا کرتے ہیں، اور مدینہ پر بھی ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے ایک مسلم معاشرے کی تعمیر کی، جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور جہاں آپ مدفون ہوئے، یہ سلطنت ایک اسلامی ورثہ ہے۔ اور اس کے برعکس۔ یہ دنیا کا ایک واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں عورتیں گاڑی نہیں چلا سکتیں، کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کا تسلط حرمین شریفین پر ہے، اور ایسا مانا جاتا ہے کہ اسلام خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ ان چند مسلم اکثریتی ممالک میں سے ایک ہے جہاں مطلقاً شہنشاہیت ہے، اسی لیے یہاں یہ مانا جاتا ہے کہ اسلام ایک ایسی حکومت کو ترجیح دیتا ہے جو کسی کے بھی سامنے جواب دہ نہ ہو۔
بہت سے معاملات میں سعودی عرب نے اسلام کی ساکھ کو داغدار کیا ہے۔ لیکن سعودی عرب کا اسلام پر ایک الگ قسم کا اثر و رسوخ ہے۔ ہر سال، لاکھوں حجاج کرام کعبہ کا طواف کرنے کے لیے مکہ آتے ہیں؛ ہمارا عقیدہ ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے احترام اور اعزاز میں کی تھی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی عبادت کے لئے اسے بحال کیا تھا۔ بہت سے لوگ غریب ممالک سے آتے ہیں، اور واضح طور پر سعودی عرب کی عالی شان و سوکت، شاہانہ دولت کا نظارہ اور اس مسجد کی چمک دھمک، رونق اور عظمت کو دیکھ کر حیران اور ششدر رہ جاتے ہیں جسے ان کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگوں کو کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔ خدا نے سعودیوں کو بے حساب و کتاب دولت سے نوازا ہے، اور انہیں حرمین شریفین پر تسلط عطا کیا ہے، اس کا مطلب یہ ضرور یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اسلام سے راضی ہے۔
اور ان کا اسلام ہے کیا۔ سعودی اسلام، وہابیت، کا جنم صرف یہ کہ شیعہ اسلام اور شیعہ اور سنی اسلام میں موجود روحانیت کی مضبوط روایات بلکہ سنی عثمانی خلیفہ کے خلاف پرتشدد بغاوت کے نتیجے میں ہوا تھا۔ دنیا کی معروف سنی طاقت نہ ہونےکے باوجود، سعودی عرب نے سنی سلطنت پر قبضہ کر لیا، جس سے اس کی چھوٹی آبادی، عظیم دولت کے ساتھ اس کے سابق حریفوں کا خاتمہ کر کے حکومت قائم کرنے میں مدد ملی۔ سعودی عرب مسلم دنیا میں وہابیت کو پھیلانے اور مکہ اور مدینہ کو تبدیل کرنے لئے بھی پیٹرول ڈالر کا استعمال کرتا ہے۔
حالیہ دہائیوں میں، سعودی عرب نے مکہ اور مدینہ کی زیادہ سے زیادہ تعمیرنو کی ہے۔ اس میں سے کچھ ضروری تھی۔ اس میں سے کچھ بہت شاندار ہیں۔ لیکن اس میں سے کچھ کی تعمیر اسلامی یادگاروں اور قدیم ترین مساجد کی قیمت پر کی گئی ہے، جنہیں کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی منہدم کر دیا گیا ہے۔
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ شہری تعمیر و ترقی کے لیے سعودی عرب پر کچھ تنقید غیر معقول ہے۔ وہ اس طرح کہ: جدید ٹیکنالوجی اور بڑھتی ہوئی معیار زندگی کی بدولت لاکھوں لوگ نہ صرف یہ کہ مکہ جانا چاہتے ہیں بلکہ اس کے متحمل بھی ہیں۔ اور وہاں کا سفر اب مہینوں نہیں بلکہ کچھ دنوں اور یہاں تک کہ چند گھنٹوں کا کام ہے۔ وہ مختلف زبانیں بولتے ہیں مختلف تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتے ہیں، اور نہ صرف یہ کہ یہ تمام لوگ ایک ہی مسجد میں عبادت کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کے بیچ کعبہ کے قریب بھی ہونا چاہتے ہیں۔ اگر چہ یہ تصور کرنا اچھا ہے کہ مکہ اور مدینہ میں پرانے شہروں کی فن تعمیر اور اس کی آرائش و زیبائش کو برقرار رکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ غیر حقیقی بھی ہے۔
وہ مہلک ہو سکتے ہیں
بلند و بالا عمارتیں ایک قدیم شہر کی مبینہ ماحول کو تباہ و برباد کر سکتی ہیں، لیکن ہر جدید شہرکاری کرنے والا جانتا ہے کہ تعمیر اکثر صرف ایک حقیقت پسندانہ راستہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات کسی کے لیے حیرت انگیز نہیں ہے کہ سعودی عرب نے مکہ کی عظیم مسجد کے باہر دنیا کی تیسری سب سے بلند عمارت تعمیر کی ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیوں یہ دنیا میں پہلی سب سے بدصورت عمارت ہے؟ سیل فون کے زمانے میں اور یہاں تک کہ ایک ایسے مذہب کے ہوتے ہوئے جس میں باقاعدہ نماز پنجگانہ کی دعوت دینے کی خصوصیت ہے اس عمارت کے اوپر ایک پرشکوہ گھڑی لٹانے کا مقصد کیا ہے؟ سب سے بڑا سوال یہ بڑے بڑے ٹاورز ایک مسطح دین کے لئے وقف ایک شہر کی درجہ بندی کے لیےبڑھتی ہوئی آمدنی کا حصہ ہیں۔ حج میں ہم سب ایک ہی طرح کا لباس پہنے ہوئے اور ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر عبادت کرتے ہوئے برابر ہیں، لیکن ہم جیسے ہی اپنے ہوٹلوں میں پہنچتے ہیں درجہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔ مکہ میں بے تحاشہ دولت ہے، اوسط اور غریب طبقے کے حاجیوں سے یہ دولت حاصل کی گئی ہے، جبکہ اس شہر کی مقدس تاریخ کو مٹا دیا گیا ہے۔ لہٰذا، اگر چہ جدید مذہبی زندگی کی ضروریات کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پرانے مساجد، مزارات اور تاریخی مقامات سد راہ بن رہے ہیں، لیکن اس سے انہیں تباہ کرنے کا مطالبہ پیدا نہیں ہوتا۔
دولت کی فراوانی کو دیکھتے ہوئے سعودی حکومت آسانی سے دوسری جگہوں پر ان مقدس اسلامی ورثہ کی دوبارہ تعمیر کر سکتی تھی۔
لیکن انہوں نے اس کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اسلامی تاریخ کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے، اور شاید اس کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی چیز نہ بچے جو اس حقیقت کو چیلنج پیش کر سکے کہ وہابیت اسلامی تاریخ میں ایک دخل اندازی ہے، اور وہ اس کے تئیں وفادار نہیں ہے۔
اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ قدیم باقیات کے خلاف داعش کی جنگ ہولناک ہے تو آپ صحیح ہیں۔ لیکن یہ غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بلکہ سعودیوں کے گمراہ کن بت شکنی کے اصول میں اس کی جڑیں مضبوط ہیں، جس کی بنیاد پر وہابیوں نے ان تمام قدیم مقامات کو تباہ و برباد کر کے مٹا دیا ہے جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان مشہور و معروف تھے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں مبالغہ کر رہا ہوں تو یہ غلط ہے۔ کئی سال پہلے میں نے امریکی مسلمانوں کے ایک چھوٹا سے گروپ کے ساتھ حج اور عمرہ کے لیے حرمین شریفین کا سفر کیا۔ ہمارے ساتھ ایک سعودی گائیڈ بھی تھا، جس نے مکہ اور مدینہ میں ہمارے سفر بس کے دوران تاریخی اہمیت کی حامل کسی بھی مساجد کے قریب بس کو روکنے نہیں دیا، کیوں کہ اسے یہ لگا کہ ہم حد سے تجاوز کر جائیں گے اور ایسے انداز میں عبادت کریں گے جو ان سخت دل وہابیوں کے لیے نامناسب ہے۔ اس نے ہمارے ساتھ بچوں کی طرح سلوک کیا۔
جو کہ ظاہر ہے، ہم میں سے کوئی بھی نہیں تھا: نہ وہابی اوسر نہ ہی بچہ۔ (اس کے بدلہ میں، میں نے اپنے اس سفر کے درمیان سلطنت عثمانیہ کے مقامات کے بارے میں خوشی خوشی اپنے ساتھیوں کو بتایا، اور سعود کے گھر کو مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم طاقتوں کے ساتھ سعود کا گندا اتحاد بتایا)۔ میرے ساتھی حجاج کرام غضبناک تھے۔ انہوں نے اس کے لیے رقم کی ادائیگی کی تھی اور انہیں ان کے مقدس شہر میں رکنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ مثال کے طور پر، ہمیں اس مسجد کے پاس رکنے سے روک دیا گیا جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں قبلہ اول یعنی یروشلم سے موجودہ قبلہ کی طرف چہرہ پھیرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (یہ مسلمانوں کے لیے اہم ہے)۔ انہیں اس بات پر غم و غصہ محسوس ہوا۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ انہیں اپنے اسلام کا تجربہ کرنے کے ایک شاندار موقع سے محروم کر دیا گیا ہے اس لیے کہ کسی اور نے اسلام کے بارے میں ان کی تشریح کا فیصلہ کیا، جو کہ زیادہ تکلیف دہ تھا۔
اور قابل توجہ امر بھی یہی ہے۔ مکہ اور مدینہ میں حکومت سعودی عرب کی ہے، لیکن وہ مسلم دنیا کی میراث ہیں۔ وہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کی مقدس میراث ہیں۔ حرمین شریف کو کسی ایک فرد کی ملکیت میں نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام ایک مساوات کا علمبردار مذہب ہے۔ (بعض مسلمان مذاق کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ منظم مذہب کو ناپسند کرنے والوں کو اسلام میں شامل ہو جانا چاہیے اس لیے کہ ہم نے انتشار اور تفرقہ میں مہارت حاصل کر لی ہے)۔ اسلام میں چند اہل مراتب ہیں اور جو موجود ہیں ان کے درمیان وسیع پیمانے پر اشتراک نہیں ہے۔ لہٰذا، کیوں ایک ایسی حکومت کو ہمارے مقدس شہروں پر تسلط قائم کرنے کی اجازت ہو جو مسلمانوں کے ایک طبقے کی نمائندگی کرتی ہے اور ایک ایسے نظریہ کی اشاعت کرتی ہے اور اسے دوسروں پر مسلط کرتی ہے جو تاریخی طور پر تکثیریت، روحانیت اور افاقیت پر مبنی اسلام کی جامع روایات سے متضاد ہے؟ اس میں عام مسلمانوں کا عمل دخل کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
مکہ اور مدینہ میں سعودی عرب کی حکومت ہے، لیکن وہ مسلم دنیا کی میراث ہیں۔
یہ وقت کی بات ہے۔ یورپی یونین میں دنیا کے کچھ امیر ترین، انتہائی ترقی پسند اور محفوظ معاشرے شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پناہ گزینوں کے بحران کے سامنے وہ بے یار و مددگار منقسم اور منتشر ہو چکے ہیں اور ان کے درمیان تعاون کا فقدان ہے۔ ابھی جب اہل یورپ ایسا نہیں کر سکتے ہیں تو کس طرح موجود مسلم دنیا اس کے کسی بھی قسم کے متبادل منظم و نسق کا انتظام کر سکتی ہے، یعنی یہ کس طرح اپنی مشترکہ میراث کے لیے مزید جامع اور مشترکہ انتظامیہ منظم کر سکتی ہے؟ مسلم دنیا ابھی بری طرح سے اختلاف و انتشار کا شکار ہے؛ ابھی اس کے تعلق سے کسی بھی تعاون پر مبنی معاہدے کا تصور کرنا ایک مشکل ترین امر ہے، اور اسی طرح ان دوسری مسلم اکثریتی حکومتوں کے بارے میں بھی یہ گمان کرنا مشکل نہیں ہے جو مکہ اور مدینہ سے ایک مختلف مفاد حاصل کریں گے۔
لیکن یہ کب تک چلے گا؟
سالوں پہلے سفر حج صرف چند خوش قسمت افراد کے لیے ہی محفوظ تھا۔ سفر بہت طویل، بہت خطرناک اور بہت مہنگا تھا۔ خود میرے پردادا شمالی ہندوستان سے حج کے لیے سفر مکہ کی روداد بیان کرتے ہیں، لیکن واپسی میں دوران سفر ان کی موت واقع ہو گئی۔ آج، ہم حج چینلز کے ذریعہ حج کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہوائی جہاز نے دنیا کو بہت چھوٹا بنانا دیا ہے۔ خبریں بہت تیزی کے ساتھ پھیل جاتی ہیں۔ مسلمان پوری دنیا میں آباد ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں لوگوں کے اندر یہ احساس شدید تھا کہ مکہ اور مدینہ ہم تمام لوگوں کی ایک مشترکہ مذہبی میراث ہے۔ آنے والے سالوں میں سعودی عرب کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کے مقدس شہر کی زیارت کرنے سے روکنا، ان کے احترام کو روکنا اور ایک ایسے نظریہ کو مسلمانوں پر تھوپنا مشکل ہو جائے گا جو نہ کہ صرف پوری دنیا کے لیے اجنبی ہےبلکہ مسلم دنیا میں بھی مکمل طور پر غیر مقبول ہے۔
ماخذ:
qz.com/511115/its-time-to-take-mecca-out-of-saudi-hands
URL for English article:
0 comments:
Post a Comment