غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
29 جون، 2015
اردو روزنامہ انقلاب کے مطابق نئی مصری حکومت نے سید قطب، حسن البنا، شیخ یوسف القرضاوی اور اخوان المسلمون کے دیگر تمام نظریہ سازوں کی کتابوں پر پابندی لگا دی ہے اور ان پر انتہا پسندی بھڑکانے کا بھی الزام ہے۔ مصری حکام نے بتایا کہ ہم ملک بھر میں تمام مساجد اور لائبریریوں سے اخوان المسلمین کی کتابوں کو ہٹانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وزارت برائے مذہبی اوقاف کے سیکریٹری گیبر تائی نے کہا: "سلفی یا اخوان المسلمین یا گاما اسلامیہ کے تمام ارکان کی تمام کتابوں کو ان مقامات سے ہٹا دیا جائے گا"۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے آج انتہا پسند مذہبی مبلغین سادہ لوح اور عام مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس طرح آج عام لوگوں کے سادہ ذہنوں میں آسانی کے ساتھ انتہا پسندوں کے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کےلیے علیحدگی پسندی، نفرت اور مذہبی انتہاءپسندی کے نظریات کو ڈالا جا رہا ہے۔
انتہا پسند خطبات براہ راست دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے تئیں مذہبی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور دنیا بھر اور خاص طور پر مسلم دنیا میں، بین نسلی بین المذہبی، فرقہ وارانہ اور مذہبی تنازعات کی آگ کو ہوا دینے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔
انتہا پسند مبلغین نوجوان اور بوڑھوں پر یکساں طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، لیکن نوجوانوں کے لیے یہ مضرت رساں اور زہریلے وار زیادہ خطرناک ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، جن نوجوانوں کو ان کے مذہبی رہنما بنیاد پرست تقاریر کر کے برانگیختہ کرتے ہیں وہ ان کے نظریات کو عملی شکل دیتے ہیں۔ وہ ان بنیاد پرست خیالات و نظریات کو عملی شکل دینے کے لیے پرجوش ہیں۔ کچھ لوگ تو اس قدر ان کے نظریات کی رو میں بہہ چکے ہیں کہ وہ ہتھیار بھی اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
مذہبی مقررین اور علماء کی رسائی اور اثر و رسوخ کا دائرہ بہت وسیع جس کی وجہ سے وہ اچھے کام بھی کر سکتے ہیں اور برے کام بھی کر سکتے ہیں۔ جو مقررین اور مبلغین روادار، لبرل، ترقی پسند، عقلیت پسندی اور اعتدال پسندی جیسے اسلام کے حقیقی، آفاقی اقدار کو پیش کرتے ہیں وہ قیام امن میں ایک بااثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب اپنے خطبات میں نفرت اگلنے والے انتہا پسند نظریہ ساز اپنے نظریاتی پیروکاروں کے انتہا پسند خیالات اور پر تشدد کارروائیوں کے لئے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں گے۔ لہذا، کمیونٹی کے ارکان کے لیےوہ افکار و نظریات باعث تشویش ہونے چاہئے جنہیں وہ مبلغین فروغ دیتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آہستہ آہستہ بنیاد پرست مبلغین کی جانب سے درپیش خطرات سے آگاہ ہو رہی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ ہندستان بے شمار صوفیوں اور سنتوں کی سرزمین ہے۔ صوفی اسلام کی روایت انسانیت، ہمدردی، خیر سگالی، انسانی اخوت، امن، تکثیریت اور رواداری میں جامع ہندوستانی ثقافت کے مطابق موجود ہے۔ صوفی تعلیمات تکثیری روایات اور کثرت میں وحدت کے تصور پر مبنی ہیں۔
حالیہ دنوں میں، صوفی مسلمانوں نے ملک کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش میں بھارت کے کئی حصوں میں چھوٹے اجتماعات کے علاوہ "مسلم مہا پنچایت" نے بڑے پیمانے پر کانفرنسوں کا اہتمام کیا ہے۔ صوفی سنی مسلمانوں کو جو کہ ہندوستان میں کل مسلم آبادی کا تقریبا 80 فی صد ہے، ان کی قراردادوں میں ہندوستانی شیعوں کی تائید و توثیق حاصل ہے، جو کہ سرکاری حکام کو بھیج دیے گئے ہیں۔ ان اجتماعات میں سنی صوفی مسلمانوں نےاس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتہا پسند وہابیوں کی نہ تو امامت (مذہبی قیادت) اور نہ ہی قیادت (سیاسی قیادت) تسلیم کرتے ہیں۔
اس طرح کی ذہن سازی کی کوششوں کے نتیجے میں، ایک بنیاد پرست مبلغ اور اہل حدیثی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مرکزی دھارے میں شامل ہندوستانی مسلمانوں کے مضبوط اور زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ ممبئی میں واقع اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کے صدر اور مسلم ممالک کے مشہور عوامی مقرر ڈاکٹر نائیک نے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (IICC)، نئی دہلی میں 17 جنوری، 2015 کو ایک عوامی خطاب منعقد کیا۔ ایک بڑی تعداد میں سنی اور شیعہ دونوں پرادریوں پر مشتمل عام مسلمان IICC کے احاطے کے باہر جمع ہو کر سختی کے ساتھ ان کے خطاب کے خلاف احتجاج کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر نائیک نے صرف شیعہ اور سنی صوفی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے جذبات کو ہی مجروح نہیں کیا ہے، بلکہ تمام مذاہب کی مذہبی ہم آہنگی اور احترام کے اقدار کی بے حرمتی بھی کی ہے۔ لہذا، انہیں ڈاکٹر نائیک کا IICC میں ایک مہمان خطیب کی حیثیت سے شامل ہونا مناسب نہیں لگتا، جس کا مقصد ہندوستان کے لوگوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اخوت و بھائی چارگی کی نمائندگی کرنا ہے۔
حال ہی میں اپنے موقف کی تائید و توثیق میں مرکزی دھارے میں شامل ہندوستانی مسلمانوں نے انتہاپسند وہابی مبلغین اور خاص طور پر یوسف القرضاوی کی جانب سے لاحق خطرات کے خلاف اپنے غصے کا مظاہرہ ایک پرامن اور جمہوری انداز میں بڑے پیمانے پر احتجاج کر کے کیا۔ عالمی شہرت یافتہ اور معروف مفتی نے اپنے فتوی میں نام نہاد جہادیوں کے خودکش بم حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ القرضاوی کو الجزیرہ ٹیلی ویژن پر ان کے ہفتہ وار پروگرام "شریعت اور زندگی" کے ذریعے دنیا بھر میں اب بھی شہرت اور مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔
آج، بہت سے ہندوستانی مسلمان سعودی اور قطری فنڈ پر چلنے والے بنیاد پرست مبلغین سے خوفزدہ ہیں۔ تاہم، ان میں سے چند افراد ہی القرضاوی کی کتابوں میں متشدد انتہا پسند مواد کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ مصری حکومت نے یوسف القرضاوی، سید قطب اور حسن البنا کی بنیاد پرست کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، اگر ہندوستانی مسلمان بھی ایسا نہیں کرتے ہیں تو لوگوں کو ان کے بھولے پن پر حیرانی ہوگی۔ ہندوستان میں بے شمار سلفی اور اہل حدیثی مدارس نے ان عرب علماء کے نظریات کو قبول کر لیا ہے، اور ان مدارس نے مذہب اور عربی ادب میں ان کی کتابوں کو اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔ میں یہ بات اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔ میں نے صوفی مدرسہ میں کلاسیکی اسلامی تعلیم حاصل کی ہے وہاں ہمارے ایک استاذ نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت حاصل کی تھی جنہوں نے عربی زبان میں مہارت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں سید قطب کی کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ظاہر ہے، ہمارے استاذ کی نیت مخلص تھی، لیکن اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے متاثر ذہنوں پر ان کتابوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا اگر ہم بچپن سے ہی ایسی کتابوں سے واقف نہ ہوتے۔
پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی سیکولر یونیورسٹیاں شعبہ اسلامیات میں اس بات کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کرتیں کہ وہ اسلام اور عربی زبان کے نام پر کیسی کتابیں پڑھا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ، ہندوستان کی اکثر مرکزی یونیورسٹیوں کے عربی شعبوں میں، پہلے اور دوسرے سال کے طالب علموں کو دار العلوم ندوۃ العلماء کے سابق سربراہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب "مختارات من ادب العربی" (عربی نثر کا ایک مجموعہ) پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں سید قطب سمیت کئی اسلامی مبلغین کی ایسی تحریریں اور رائے شامل ہیں جن سے اسلام کی ان کی خاص تعبیر و تشریح کا اظہار ہوتا ہے۔
اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی حکومت بھی بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے مصر، چیچنیا، بنگلہ دیش اور قزاقستان کے نقش قدم پر چلے۔ ان ریاستوں نے تمام شکلوں میں بنیاد پرست اسلام اور وہابیت پر پابندی عائد کر دی ہے، خاص طور پر مساجد، مدارس اور اسکولوں کے نصاب میں۔ انہوں نے امن کی بحالی اور انتہا پسندی کی روک تھام کے مقصد سے بنیاد پرست وہابی اماموں جگہ امن پسند اور اعتدال پسند لوگوں کو بحال کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سب سے قدیم سنی صوفی اسلامی تعلیمی ادارہ، الازہر یونیورسٹی، قاہرہ، نے بنیاد پرستی پر مبنی وہابی نظریہ کی مذمت کی ہے۔ الازہر کے سربراہ، احمد الطیب نے وہابیوں کی بدعنوان اسلامی تشریحات کو دنیا میں پرتشدد انتہا پسندی کی جڑ قرار دیا ہے۔
بہر حال، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے انتہا پسند اسلامی مبلغین کی موجودگی اور ان کے اثر و رسوخ کو نظر انداز کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آج ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑ اہے کہ اگر صورت حال کنٹرول سے باہر ہوئی تو اسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔
نفرت اور دہشت گردی کے نظریہ کو صرف محبت اور امن کے نظریہ سے ہی شکست دیا جا سکتا ہے۔ اعتدال پسند اسلامی مبلغین انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور ترقی پسندی اور اعتدال پسندی کو فروغ دینے میں ایک فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ،سول سوسائٹی کے کارکنان بھی اس شعبہ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، علماء اور دیگر مذہبی قائدین انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کی بہترین حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے نوجوانوں کو اس بات کی نصیحت کرنا ضروری ہے کہ وہ ایسے کسی بھی مذہبی مبلغ کے لئے کوئی گنجائش نہ رکھیں جو نفرت بھرے خطبات سے ان کے دماغ کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنیاد پرست مبلغین کو ان کے مذموم اثر و رسوخ کو پھیلانے سے روکنے میں ریاست کی بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔
URL for English article:
0 comments:
Post a Comment