Islam and the Righteous Way of Difference اسلام اور ادب اختلاف
مولانا اسرارالحق قاسمی
2 ستمبر، 2015
ایک معاشرہ اور سوسائٹی میں رہتے ہوئے آپس میں اختلاف کا پیدا ہونا یقینی ہوتا ہے، کیونکہ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہیں، ان کا سو چنے کا انداز الگ الگ ہے ، ایک دوسرے کو برتنے اور سمجھنے کے زاویے علیحدہ ہیں،اس لیے سماجی زندگی میں بھی رایوں کا اختلاف سامنے آتا رہتا ہے اور مذہبی و عملی زندگی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ایسے موقع پر اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ فطری تقاضے کے مطابق اختلاف تو ہوگا، مگر اس اختلاف سےنمٹنے کا راستہ اچھا ، معتدل اور متوازن ہونا چاہئے، کسی کی دل آزاری نہ ہو، سامنے والے کو برا بھلا نہ کہیں، گالی گلوچ نہ کریں، طعنہ تشنیع نہ کریں اور اگر کسی مسئلے میں آپس میں اختلاف ہوجائے تو اپنا موقف اور رائے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فریق مقابل کی رائے کو بھی سنیں، سمجھیں اور اگر چہ وہ رائے ہمارے خلاف ہو، کسی خانگی مسئلے میں بھی ، کہیں کام کررہے ہوں ، تو ساتھی کےساتھ ، باس ہیں، تو ملازم کے ساتھ، ملازم ہیں تو اپنے باس کے ساتھ اختلاف ہوسکتا ہے، مگر اس قسم کے مواقع پر ہر انسان کو اپنے ذہن اور دماغ پر قابو رکھنا چاہئے اور اختلاف کوکسی خطرناک نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور باہم صلح و مصالحت کی کوشش کرنی چاہئے۔اسی طرح مذہبی مسائل جن میں مسلمانوں کے مختلف مسالک و مکاتب فکر میں اختلافات ہیں اور ان کا تعلق فردعیات سے ہے، ان اختلافات میں بھی تشدد اور تعصب سے حد درجہ احتراز کریں اور اگر اختلاف ا ولیٰ و غیر اولیٰ کے بارے میں ہے ، تو اس کو کسی کے اسلام و کفر کا مسئلہ نہ بنائیں ، بلکہ سنجیدہ ماحول میں خالص علمی مذاکرہ اور بات چیت کے ماحول میں اپنا اپنا موقف رکھیں، اس طرح مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا بھی موقع فرقوں اور مکاتب فکر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا بھی موقع ملے گا اور امت کے لیے مسلمات عقائد پر اتحاد کے ساتھ مشترکہ دشمنوں سے مقابلہ آرائی بھی آسان ہوجائے گی۔ اسلام نے اولاً تو بے جا اختلاف و انتشار کی ممانعت کی ہے اور اگر کسی مسئلے پر اختلاف ہوہی جائے، تو پھر بہتر طریقے سے مدافعت کی تلقین و ہدایت کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ‘‘ اور آپس میں مت جھگڑو کہ تم ناکام ہوجاؤ اور تمہاری ہوا نکل جائے اور اللہ کے راستے میں جمے رہو، بلا شبہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے’’۔ ( الانفال :46) دوسری جگہ فرمایا : ‘‘ تم اپنی خواہشات کی پیروی کرو کہ راہ راست سے تجاوز کر جاؤ ’’ ۔ ( النسا ء: 135) تیسری جگہ فرمایا : ‘‘ساری دنیا کے لوگ ایک ہی امت تھے ، پھر اللہ نے ان کے درمیان نبیوں کو مبعوث فرمایا، جو بخشش و مغفرت کی بشارت دینےو الے اور اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے تھے اور ان کےساتھ کتاب حق نازل فرمائی تاکہ اس کتاب کے ذریعے ان کے اختلافی مسائل میں فیصلہ کیا جائے اور اس کتاب کے سلسلے میں اختلاف نہیں کیا، مگر ان ہی لوگوں نے جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی واضح دلیلیں آجانے کے بعد آپس میں ظلم و زیادتی کی وجہ سے ’’( (البقرہ :213) احادیث میں بھی متعدد موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اختلاف و انتشار اور اس کے نقصانات سے باخبر کیاہے، عام طور پر لوگوں کے مابین اختلاف اس لیےہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی بات نہیں مانتے اور اس کو اپنی ناک کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، یعنی تکبر کی وجہ سے اختلاف کو ہوا ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ’’ ۔ (صحیح مسلم ، ح : 93) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ انسان وہ ہے ، جو جھگڑ الو او رناحق پر جم جانے والا ہو’’۔ (متفق علیہ ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ‘‘ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ‘‘ جس شخص نے کسی ناحق معاملے میں جھگڑا کیا، حالانکہ وہ اس کے ناحق ہونے کو جانتا بھی ہے، تو وہ اس وقت تک اللہ کے غیظ و غضب کا شکار رہتا ہے، جب تک کہ وہ اس معاملے میں نکل نہ جائے ’’ ۔(سنن ابوداؤد، ح: 3597)
بہر کیف وہ اختلاف رائے ، جس کی بنیاد مرادِ خداوندی کی تعیین ، حق تک رسائی اور معاشرے کو نفع پہنچانا ہو اور جس کا سبب علوم و افکار او رتجربات و سمجھ میں تفاوت ہوتا ہے، وہ ایک درست اور فطری صورت حال ہے، کیونکہ اس سے فکری تنوع کا پتا چلتا ہے اور اس صورت میں ایک مسئلے کے مختلف حل اور ایک منزل تک پہنچنے کے مختلف ذرائع و وسائل اور ایک مسئلے کو مختلف نظری و فکر ی ابعاد اور زاویوں سے دیکھنے کے راستے نکلتے ہیں ، اختلاف کی وجہ سے متعدد و متنوع عقلی و فکری نتائج ایک گلدستے میں جمع ہوجاتےہیں اور اس طرح اذہان کھلتے اور علوم میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور اس قسم کا اختلاف ہی نفع بخش ہوتا ہے۔
نفع بخش اختلاف ہی کی قسم میں فقہائے امت کے اختلافات بھی شامل ہیں، کیونکہ یہ قرآن و حدیث کو سمجھنے میں ان کی الگ الگ اجتہادی کوششوں کا نتیجہ ہیں، ان کے اختلافات امت کے لیے باعثِ رحمت اور شرعی مسائل و احکام میں گنجائش و کشادگی کی راہ نکالنے میں معین و مددگار ہیں۔
البتہ لوگوں کے مابین پیدا ہونے والے وہ اختلافات ، جو نفسیاتی خواہشات اور قبول حق سے روکنے والے کبر او راس عجیب پرمبنی ہو، جس کی وجہ سے انسان کسی ایک رائے پرجم جاتاہے، اس قسم کے اختلافات کا غلط ہونا واضح او ربیّن ہے ، اسی طرح دوسروں کو تکلیف پہنچا کر اپنے محدود ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اختلاف کرنا بھی غلط ہے اور شرعاً یہ ایک قابل مذمت اختلاف ہے، کیونکہ اس سے بھائی چارہ اور دوستی کا بندھن ٹوٹتا ہے اور نوبت باہمی جدال اور دشمنی تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی بھی مسئلے میں اختلاف کرنے کے شرعاً کچھ آداب ہیں، جن کی رعایت کرنا واجب ہے، ان میں چند کا ذکر کیا جاتاہے:
(1) ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ جب اس پر حق واضح ہوجائے، تو وہ خندہ پیشانی کے ساتھ اسے قبول کرلے اور عناصر اور کبر میں حد سے تجاوز نہ کرے ، تاکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس و عید سے محفوظ رہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
‘‘ جس شخص نے کسی باطل مسئلے میں اختلاف کیا، حالانکہ وہ اس کے بطلان سے واقف ہے، تو وہ اس وقت تک اللہ کے غیظ و غضب کا شکار رہتا ہے ، جب تک کہ اس معاملے سے نکل نہ جائے ’’۔ ( سنن ابوداؤد، ح : 3597)
(2) مختلف فیہ مسئلے میں ماہرین سے رجوع کرے، اگر مسئلہ شریعت سے تعلق رکھتا ہو، تو اہل علم اور فقہا سے رجوع کرے، اگر طب سے تعلق رکھتا ہو، تو ماہر ڈاکٹروں سےرجوع کرے و علی ہذا القیاس۔
(3) اپنے مخالف کا احترام کرے، اثنائے بحث اس کی رائے کا استخفاف یا تحقیر نہ کرے اور زبردستی اس کی کمی کوتاہی کو نہ ڈھونڈے۔
(4) ایک مسلمان کا وطیرہ یہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی معاملے میں اختلاف سےاس کا مقصد حقیقت تک رسائی ہو، محض کسی کو نیچا دکھانا یا اپنی برتری ثابت کرنا نہ ہو۔
(5) بحث کے دوران گفتگو میں اچھے الفاظ استعمال کرے، جارحانہ فقروں اور جملوں کے استعمال سے احتیاط برتیں۔
(6) فریق مقابل کی بات اچھی طرح سنے اوربیچ ہی میں اس کی بات نہ کاٹیں۔ موجودہ عہد میں جب کہ ہر انسان اپنے آپ میں مگن ہے اور اسے صرف اور صرف اپنی فکر رہتی ہے، ایسے میں اس سے اگر کہا جائے کہ کسی سے اختلاف ہوتو نرمی برتواور سنجیدگی و ٹھنڈے پن کے ساتھ بات کرو، توشاید ہی اس کے دل میں بات اترے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن جھگڑوں بلکہ قتل و خوں ریزی تک کےمعاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مختلف طبقات اور مذاہب کے ماننے والے رہتےہیں اور بعض شہروں یا محلوں میں مخلوط آبادی ہوتی ہے، وہاں پربسا اوقات بہت معمولی معمولی بات کو لے کر فرقہ وارانہ فساد تک کی نوبت آجاتی ہے اور پھر مسلمانوں کو جان و مال کا بے تحاشہ نقصان سہنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح خود مسلمانوں میں بھی آپس میں اس قدر اختلافات ہیں کہ پناہ بخدا ! ہر شخص دوسرے سے دست وگریباں ہے،کسی کو کسی پر اعتماد نہیں ، کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، معمولی معمولی باتوں پر گولی بندوق تک کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسے میں ہمیں اختلافات کے تعلق سے اسلام کی مذکورہ تعلیمات و ہدایات کو پڑھنا اور سمجھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ توجہ اختلافات کو ختم اور کم کرنے پر زور دینی چاہیے ،امت کو فی الوقت اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور انتشار اس کے لیے سب سےبڑا ناسور ہے۔
2 ستمبر، 2015 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق، نئی دہلی
0 comments:
Post a Comment