لوئے فتوحی
03 اگست، 2015
مصنف کی اجازت کے ساتھ مصنف کے بلاگ سے اس تحریر کو نیو ایج اسلام پر پیش کیا جا رہا ہے
لفظ "سنت" قرآنی مجید کی نو آیات میں چودہ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ چار آیات میں اس کا ذکر اس طرح ہے "سنت الاولین" معنیٰ "پہلوں کی سنت۔" عام طور پر "سنت" کا معنی "مثال" یا "قسمت،" کیا گیا ہے، لیکن سنت کا اس سے بھی زیادہ عام ‘‘راستہ’’ ، ‘‘معمول’’ ، "طریقہ"، ''روایت"، "عادت''، ''حالات" یا "صورت حال" ہے۔ لہٰذا، "سنت الاولین" کا معنیٰ قدیم لوگوں عمل یا معمول زندگی ہو گا، ان چاروں میں تین آیات حسب ذیل ہیں:
آپ کفر کرنے والوں سے فرما دیں: اگر وہ (اپنے کافرانہ اَفعال سے) باز آجائیں تو ان کے وہ (گناہ) بخش دیئے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور اگر وہ پھر وہی کچھ کریں گے تو یقیناً اگلوں (کے عذاب در عذاب) کا طریقہ گزر چکا ہے (ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا۔ (8:38)
یہ لوگ اِس (قرآن) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بیشک پہلوں کی (یہی) روش گزر چکی ہے۔ (15:13)
اور لوگوں کو جبکہ ان کے پاس ہدایت آچکی تھی کسی نے (اس بات سے) منع نہیں کیا تھا کہ وہ ایمان لائیں اور اپنے رب سے مغفرت طلب کریں سوائے اس (انتظار) کے کہ انہیں اگلے لوگوں کا طریقہ (ہلاکت) پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آجائے۔ (18:55)
لفظ "سنت" قرآن مجید کی پانچ آیات میں آٹھ مرتبہ اس طرح وارد ہوا ہے:"سنت اللہ" یا ‘‘اللہ کا طریق’’۔ ان آیات میں سے ایک میں "سنت الاولین" اور "سنت اللہ" دونوں جملے وارد ہوئے ہیں۔
انہوں نے) زمین میں اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھنا اور بری چالیں چلنا (اختیار کیا)، اور برُی چالیں اُسی چال چلنے والے کو ہی گھیر لیتی ہیں، سو یہ اگلے لوگوں کی رَوِشِ (عذاب) کے سوا (کسی اور چیز کے) منتظر نہیں ہیں۔ سو آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ ہی اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی پھرنا پائیں گے۔ (35:43)
کچھ مفسرین نے کہاہے کہ "سنت الاولین" سے مراد ان لوگوں پر اللہ کا عذاب ہے جنہوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔ لہٰذا، اس صورت میں اس کا ترجمہ "پہلوں کا انجام"کیا جا سکتا ہے۔
وہ دیگر چار آیتیں جن میں "سنت اللہ" کا ذکر ہے:
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کام (کی انجام دہی) میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے ان کے لئے فرض فرما دیا ہے، اللہ کا یہی طریقہ و دستور اُن لوگوں میں (بھی رہا) ہے جو پہلے گزر چکے، اور اللہ کا حکم فیصلہ ہے جو پورا ہوچکا۔ (33:38)
اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ (33:62)
پھر اُن کا ایمان لانا اُن کے کچھ کام نہ آیا جبکہ انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھ لیا تھا، اﷲ کا (یہی) دستور ہے جو اُس کے بندوں میں گزرتا چلا آرہا ہے اور اس مقام پر کافروں نے (ہمیشہ) سخت نقصان اٹھایا۔ (40:85)
یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (48:23)
آخر میں، اس آیت میں لفظ سنت کا استعمال دو مرتبہ کیا گیا ہے، پہلا لفظ سنت ان رسولوں کے معمولات کے تعلق سے ہے جنہیں اللہ نے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھیجا اور اس کے بعد لفظ"سنتنا (ہماری راہ)" کا ذکر ہے۔
ان سب رسولوں (کے لئے اﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے [سنتنا]۔ (17:77)
نو آیات میں جن میں لفظ ‘‘سنت’’ہوا ہے ان میں نو مرتبہ سنت سے مراد اللہ کی سنت ہے، چار مرتبہ سنت سے مراد قدیم لوگوں کی سنت اور ایک مرتبہ سنت سے مراد اللہ کے گزشتہ رسولوں کی سنت ہے۔
لہٰذا، قرآن مجید میں لفظ "سنت" کا استعمال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے یا معمولات کے معنیٰ میں نہیں ہوا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا سب سے قریبی معنیٰ اس آیت میں وارد ہوا ہے جس میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے رسولوں کی سنت کا ذکر ہے 17:73۔ فطری طور پر اصل مراد یہاں کوئی سنت یا راستہ ہے، اور مذہب کی معنویت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اس سے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے مراد ان میں سے کسی ایک نبی کی خصوصیت نہیں بلکہ حکم خدا کی حیثیت سے تمام رسول کے درمیان مشترک طرز عمل اور اقدار ہوں گے۔ لہٰذا، قرآن میں خاص طور پر پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کے لیے لفظ "سنت" موجود نہیں ہے۔ تاہم، اس سے یہ حقیقت نہیں بدلتی کہ قرآن مسلمانوں کو پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور تقلید کرنے کا حکم دیتا ہے:
فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ (33:21)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کے اس حکم میں قول و عمل پر مشتمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمولات کی تائید و توثیق کی گئی ہے اور سنت اسی کو کہتے ہیں۔
قرآن میں بارہ آیات ایسی ہیں جن میں مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی "اطاعت" کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بات پر تاکید کرنے کے لیے کہ نبی کی اطاعت خدا کی اطاعت کے لئے ضروری ہے، بارہ آیتوں میں سے گیارہ آیتوں میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ "اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرو" (3:32، 3:132)، "اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو"، (4:59، 4:92، 24:54، 47:33، 64:12)، اور "اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو" (8:1، 8:20، 8:46، 58:13)۔ بارھویں آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے: "رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے" (24:56)۔
اس کے علاوہ بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل اور عمل کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے سب سے بہترین مثال قائم کی ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل اللہ کے حکم کے مطابق تھا۔ یہی وجہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو سیکھنا اور سمجھنا مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن ہمیں ہمیشہ اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی سنت قرآن کی طرح قابل رسائی نہ رہی۔ قرآن میں اللہ نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ میں ہر تحریف و تبدیلی سے قرآن کی حفاظت کروں گا، لیکن اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں یہ وعدہ نہیں کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی دہائیوں اور صدیوں کے دوران بہت سے ایسے عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب سنتوں کو متاثر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف ایسی تفصیلات ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابتدائی مسلم علماء کے درمیان کافی اختلاف ہیں۔ اس حقیقت کی بنا پر نبی صلی اللہ کی سنت کو سیکھنے میں ہماری دلچسپی ختم نہیں ہونی چاہیے، لیکن ہمیں اس بات سے بھی آگاہ رہنا چاہئے یہ عمل مشکل اور غیر یقینی صورتحال سے بھرا ہوا ہے۔ یہ بات کہ قرآن کے سوا کوئی ہر مصدر و مرجع جس پر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے بارے میں مکمل طور پر اعتماد سکتے ہیں تاریخی طور پر متضاد ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے متعلق دستیاب ذرائع کی سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کرنا ہی ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔
ماخذ:
Copyright © 2011 Louay Fatoohi
0 comments:
Post a Comment