محمد نجیب سنبھلی
4 ستمبر، 2015
حدیث وہ کلام ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکوت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ و تابعین رحمۃ اللہ علیہ و تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ و محدثین و مفسرین و فقہاء و علماء و مؤرخین غرض یہ کہ ابتداء اسلام سےعصر حاضر تک امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کے بعد ‘حدیث’ اسلامی قانون کا دوسرا اہم و بنیادی ماخذ ہے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے، مثلاً ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ( سورۂ النحل ۔44) ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیا ت میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور رسول کی اطاعت احادیث پر عمل کرنا ہی تو ہے۔ غرضیکہ احکام قرآن پر عمل کےساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال یعنی حدیث نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے۔ حق تو یہ ہے کہ قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ امت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام و مسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ نبی و رسول کی بعثت کا بنیادی مقصد احکام الہٰی کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ انسانوں کی رہنمائی کیلئے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتاہے، جس طرح ایمان کے معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق نہیں کی جاسکتی کہ ایک کو مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے ، ٹھیک اسی طرح ‘کلام اللہ’ اور ‘ کلام رسول’ کے درمیان بھی کسی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک کو واجب الاطاعت مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے انکار پر دوسرے کا انکار خود بخود لازم آئے گا۔
حدیث ، مذکورہ مقاصد میں سے کسی ایک مقصد کےلئےہوتی ہے:
(1) قرآن کریم میں وار د عقائد و احکام و مسائل کی تاکید۔
(2) قرآن کریم میں وارد عقائد و احکام و مسائل کے اجمال کی تفصیل ۔
(3) قرآن کریم کے ابہام کی وضاحت ۔
(4) قرآن کریم کے عموم کی تخصیص ۔
(5) بعض دیگر عقائد و احکام و مسائل کا ذکر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الحشر آیت نمبر 7 میں ارشاد فرما دیا : (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ) جس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیں اس کو بجا لاؤ اور جس کام سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
حدیث کی قسمیں : سند حدیث ( جن واسطوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یاعمل یا تقریر یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صفت امت تک پہنچی ہے) کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں، جن میں سے تین اہم اقسام حسب ذیل ہیں:
صحیح : و ہ حدیث مرفوح جس کی سند میں ہر راوی علم و تقویٰ دونوں میں کمال کو پہنچا ہوا ہو اور ہر راو ی نے اپنے شیخ سےحدیث سنی ہو، نیز حدیث کےمتن میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سےکوئی تعارض بھی نہ ہو اور کوئی دوسری علت (نقص) بھی نہ ہو۔
صحیح کا حکم : جمہور محدثین و مفسرین و فقہاء و علماء کا ان احادیث سےعقائد و احکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے۔
حسن: و ہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی تقویٰ میں تو کمال کو پہنچا ہوا ہو اور ہر راوی نےاپنے شیخ سے حدیث بھی سنی ہو، نیز حدیث کےمتن میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سےکوئی تعارض بھی نہ ہو، لیکن کوئی ایک راوی علم میں اعلیٰ پیمانہ کا نہ ہو۔
حسن کا حکم : جمہور محدثین و مفسرین و علماء کا ان احادیث سےعقائد و احکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے، البتہ اس کا درجہ صحیح سے کم ہے۔
ضعیف : حدیث حسن کی شرائط میں سےکوئی ایک شرط مفقود ہو۔
ضعیف کا حکم : احادیث ضعیفہ سےاحکام و فضائل میں استدلال کیلئے فقہا ء و علما ء محدثین کی تین رائے ہیں:
(1) احادیث ضعیفہ سےاحکام و فضائل دونوں میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔ (2) احادیث ضعیفہ سےاحکام و فضائل دونوں استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (3) عقائد یا احکام تو ثابت نہیں ہوتے، البتہ قرآن یا احادیث صحیح سے ثابت شدہ اعمال کی فضیلت کیلئے احادیث ضعیفہ قبول کی جاتی ہیں ۔ جمہور محدثین و مفسرین و فقہا ء و علما ء کی یہی رائے ہے، مشہور محدث امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء امت کا اس پر اجماع ہونے کاذکر کیا ہے۔
( نوٹ) حدیث کی اصطلاح میں صحیح ، غلط یا باطل کےمقابلہ میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ صحیح کامطلب ایسی حدیث جس کی سند میں ذرہ برابر کسی بھی نوعیت کی کوئی کمی نہ ہو اور تمام راوی علم و نقوی میں کمال کو پہنچے ہوئے ہوں، جب کہ حدیث حسن کا مطلب ہے کہ جو صحیح کے مقابلہ میں درجہ میں کچھ کم ہو، ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند کے کسی راوی میں کچھ ضعیف ہو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ۔ غرضیکہ ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے ۔ ضعیف حدیث میں ضعیف عموماً معمولی درجہ کا ہی ہوتاہے۔ ذخیرہ حدیث میں اگر چہ کچھ موضوعات بھی شامل ہوگئی ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں، نیز محدثین و علماء نے دن رات کی جدو جہد سے ان کی نشاندہی بھی کردی ہے۔
ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے:خیر القرون سے آج تک اصطلاح حدیث میں صحیح کے مقابلہ میں موضوع استعمال ہوتاہے یعنی وہ من گھڑت بات جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب کردی گئی ہو، محدثین و علماء نے دن رات کی جد وجہد سےان کی نشاندہی بھی کردی ہے اور ذخیرہ حدیث میں ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے، جب کہ ضعیف حدیث صحیح حدیث کی ہی ایک قسم ہے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری کی وجہ سے جمہور علماء اس کو فضائل کے باب میں قبول کرتے ہیں، مثلاً سند میں اگر کوئی راوی غیر معروف ثابت ہوا یعنی یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے یا اس نے کسی ایک موقع پرجھوٹ بولا ہے یا سند میں انقطاع ہے (یعنی دو راویوں کے درمیان کسی راوی کا ذکر نہ کیا جائے مثلاً زید نے کہا کہ عمر نے روایت کی حالانکہ زید نے عمر کا زمانہ نہیں پایا، معلوم ہوا کہ یقیناً ان دونوں کے درمیان کوئی واسطہ چھوٹا ہوا ہے) تو اس نوعیت کے شک و شبہ کی وجہ سے محدثین و فقہاء و علماء احتیاط کے طو رپر اس راوی کی حدیث کو عقائد اور احکام میں قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ جو عقائد یا احکام قرآن کریم یا صحیح احادیث سے ثابت ہوئے ہیں ان کے فضائل کیلئے قبول کرتےہیں ۔ چنانچہ بخاری و مسلم کے علاوہ حدیث کی مشہور و معروف تمام ہی کتابوں میں ضعیف احادیث کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے او رامت مسلمہ ان کتابوں کو زمانۂ قدیم سے قبولیت کا شرف دیئے ہوئے ہے، حتیٰ کہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق بخاری کی تعالین اور مسلم کی شواہد میں بھی چند ضعیف احادیث موجود ہیں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےحدیث کی متعدد کتابیں تحریر فرمائیں۔ بخاری شریف کے علاوہ ان کی بھی تمام کتابوں میں ضعیف احادیث کثرت سے موجود ہیں۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم سےقبل او ربعد میں احادیث پر مشتمل کتابیں تحریر کی گئیں مگر ہر محدث نے اپنی کتاب میں ضعیف حدیثیں ذکر فرمائی ہیں۔ اسی طرح بعض محدثین نے صرف صحیح احادیث کو ذکر کرنے کا اپنے اوپر التزام کیا، مثلاً صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان وغیرہ ، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب میں احادیث ضعیفہ بھی ذکر فرمائیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خیر القرون سےآج تک تمام محدثین نے احادیث ضعیفہ کو قبول کیا ہے۔ سب سے مشہور و معروف تفسیر قرآن ( تفسیر ابن کثیر) میں اچھی خاصی تعداد میں ضعیف احادیث ہیں لیکن اس کے باوجود تقریباً 700 سال سے پوری امت مسلمہ نے اس کو قبول کیاہے اور وہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے اور اس کے بعد میں لکھی جانے والی تفسیروں کیلئے منبع و ماخذ ہے۔
اگر ضعیف حدیث قابل اعتبار نہیں ہے تو سوال یہ ہےکہ محدثین نے اپنی کتابوں میں انہیں کیوں جمع کیا؟ اوران کیلئے طویل سفر کیوں کئے؟ نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر ضعیف حدیث کو قابل اعتبار نہیں سمجھاجائے گا تو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخ اسلام کاہی ایک بڑا حصہ دفن کرنا پڑے گا کیونکہ سیرت اور تاریخ اسلام کا و افر حصہ ایسی روایات پر مبنی ہے جس کی سند میں ضعیف ہو۔ زمانہ قدیم سےجمہور محدثین کا اصول یہی ہےکہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہے اور انہوں نے ضعیف حدیث کو صحیح حدیث کی اقسام کے ضمن میں ہی شمار کیا ہے۔
مسلم شریف کی سب سے زیادہ مقبول شرح لکھنے والے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ( مؤلف ریاض الصالحین ) فرماتے ہیں : محدثین ، فقہاء علماء اور جمہور علماء نے فرمایاکہ ضعیف حدیث پر عمل کرنا فضائل اور ترغیب و ترہیت میں جائز اور مستحب ہے، ( الاذکار، ص 7۔8) ۔ اسی اصول کو دیگر علماء و محدثین نےتحریر فرمایا ہے جن میں سے بعض کےنام یہ ہیں : شیخ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ( موضوعات کبیرہ ص 5، شرح العقاریہ ، ج 1 ، ص 9، فتح باب العنایہ 1/49) ، شیخ امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ ( مستدرک حاکم ج 1، ص 490) ، شیخ ابن حجر الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ ( فتح المبین ، ص 32)، شیخ ابو محمد بن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ ( المغنی 1/1044) ، شیخ علامہ الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ ( نیل الاد وطار 3/68)، شیخ حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ( شرح علل الترمذی 1/72۔74) ، شیخ علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ( فتاویٰ ج 1 ص 39) ، شیخ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ ( دلیل الطالب علی المطالب ص 889)۔
عصر حاضر میں بعض حضرات جو مسلمانوں کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں، اپنی رائے کو امت مسلمہ کے سامنے اس طرح پیش کرتےہیں کہ جو وہ کہتے ہیں وہی صرف احادیث صحیح پر مبنی ہے اور پوری امت مسلمہ کے اقوال احادیث ضعیفہ پرمبنی ہیں ۔ ان کے نقطہ نظر میں حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا معیار صرف یہ ہے کہ جو وہ کہیں وہی صرف صحیح ہے ۔ حالانکہ احادیث کی کتابیں تحریر ہونے کے بعد حدیث بیان کرنے والے راویوں پر باقاعدہ بحث ہوئی ، جس کو اسماء الرجال کی بحث کہا جاتاہے ۔ احکام شرعیہ میں علماء و فقہاء کے اختلاف کی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید اختلاف محدثین کا راویوں کو ضعیف اور ثقہ قرار دینے میں ہے، یعنی ایک حدیث ایک محدث کے نقطہ نظر میں ضعیف اور دیگر محدثین کی رائے میں صحیح ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی حدیث پیش کی جائے تو فوراؑ عام لوگوں کو بغیر تحقیق کئے ہوئے یہ تبصرہ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ وہ حدیث صحیح ہو ، جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےقول کا انکار لازم آئے ۔ اگر کوئی عالم کسی حدیث کو قابل عمل نہیں سمجھتا ہے تو وہ اس پر عمل نہ کرے لیکن اگر کوئی دوسرا مکتب فکر اس حدیث کو قابل عمل سمجھتا ہے اور اس حدیث پرعمل کرنا قرآن و حدیث کے کسی حکم کے مخالف بھی نہیں ہے، تو ہمیں چاہئے کہ ہم تمام مکاتب کی رائے کا احترام کریں ۔ غرضیکہ ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی ایک قسم ہے اور امت مسلمہ نے فضائل اعمال کیلئے ہمیشہ ان کو قبول کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدیث لکھنے کی عام اجازت نہیں تھی تاکہ قرآن وحدیث میں اختلاط نہ پیدا ہوجائے ، البتہ انفرادی طور پر صحابہ کرام کی ایک جماعت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے احادیث کے صحیفہ تیار رکھے تھے ۔ خلفاء راشد بن رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی حدیث لکھنے کا نظم انفرادی طور پر جاری رہا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ (61ھ 101ھ ) نے اپنی خلافت کے زمانہ (99ھ 101ھ) میں احادیث کو جمع کرانے کا خاص اہتمام کیا ۔ اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر لیا گیا تھا جو بعد میں تحریر کی گئیں کتابوں کے لئے اہم مصدر بنا۔
200 ہجری سے 300 ہجری کے درمیان احادیث لکھنے کا خاص اہتمام ہوا، چنانچہ حدیث کی مشہور و معروف کتابیں: بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ ، نسائی وغیرہ ( جن کو صحاح ستہ کہا جاتاہے) اسی دور میں تحریر کی گئی ہیں، جب کہ موطا امام مالک 160 ہجری کے قریب تحریر ہوئی ۔ ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل ہی 150 ہجری میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ( شیخ نعمان بن ثابت) کی وفات ہوچکی تھی ۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کی کتاب (کتاب الآثار) ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل مرتب ہوگئی تھی ۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ پوری دنیا میں باقاعدہ لکھنے کا عام معمول 200 ہجری کے بعد ہی شروع ہوا ہے یعنی حدیث کیے طرح تفسیر ، سیرت اور اسلامی تاریخ جیسے دینی علوم کی باقاعدہ کتابت 200 ہجری کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ اسی طرح عصری علوم اور شعر و شاعری بھی 200 ہجری سے پہلے دنیا میں عمومی طور پر تحریری شکل میں موجود نہیں تھی کیونکہ کم تعداد ہی پڑھنا لکھنا جانتی تھی ۔ 200 ہجری تک تمام علوم ہی حتیٰ کہ شاعروں کے بڑے بڑے دیوان بھی صرف زبانی طور پر ایک دوسرے سے منتقل ہوتے چلے آرہے تھے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حدیث کی باقاعدہ کتابیں 200 ہجری کے بعد سامنے آئی ہیں تو اس نوعیت کا اعتراض تفسیر قرآن، سیرت کی کتابوں اور اسلامی تاریخ اور شاعروں کے دیوانوں بلکہ یہ اعتراض دیگر عصری علوم پر بھی کیاجاسکتا ہے کیونکہ باقاعدہ ان کی کتابت 200 ہجری کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ 200 ہجری تک اگرچہ متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں مگر عام طور پر تمام علوم صرف زبانی ہی پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے بعد حدیث اسلامی قانون کا دوسرا اہم و بنیادی ماخذ ہے اور حدیث نبوی بھی قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے۔ حدیث کے بغیر ہم قرآن کو سمجھنا تو درکنار اسلام کے پانچ بنیادی اہم رکن کو بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
4 ستمبر، 2015 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی
0 comments:
Post a Comment